حكومت آل سعود



اور كیا یہ فقط ان كا تصور تھا، یا ان چند لوگوں نے عمداً كسی خاص مقصد كے تحت یہ الزام اور تھمت لگائی؟!

ہ موضوع واقعاً پیچیدہ او رمبھم دكھائی دیتا ھے اور یہ بات روشن نھیں ھے كہ یہ واقعہ ایك اتفاق ھے یا اس كے پیچھے كسی كا ھاتھ ھے؟ اور دوسری تعجب خیز بات یہ ھے كہ كون شخص عاقل ایسا هوسكتا ھے كہ مسلمان هوكراتنی مشكلات كے ساتھ كتنی آرزوں اور تمناوں كے بعد حج سے مشرف هونے كے لئے وھاں جاتا ھے، او راس زمانہ میں سفر حج میں كتنی مشكلات تھیںان تمام مشكلات كو برداشت كرنے كے بعد حج كے لئے پهونچے اور اتنے شرمناك كام انجام دے، ؟!

اس كے بعد یہ سوال پیدا هوتا ھے كہ عدالت پر یہ كیسے ثابت هوا كہ یہ شخص ایسا ارادہ ركھتا تھا؟ كیونكہ نہ عدالت اس كی زبان كو سمجھتی تھی اور نہ ھی وہ عدالت كی زبان سمجھتے تھے، كس نے ان كا دفاع كیا، كیا كوئی فارسی جاننے والا وكیل ان كا دفاع كررھا تھا؟ ان تمام باتوں كے علاوہ الزام اور فیصلہ میں صرف دو دن كا وقت لگا، در حالیكہ اسلامی نظریہ كے مطابق قتل كے سلسلہ میں ھر طرح كی احتیاط كرنی چاہئے، كہ كھیں غلطی كے سبب كسی بے گناہ شخص كی جان نہ چلی جائے ۔

قارئین كرام! حقیقت تویہ ھے كہ ابوطالب كے قتل كی اصل وجہ معلوم نہ هوسكی، یھاں تك كہ چند سال پھلے شیخ حر ّ عاملی صفویہ دور كے عظیم الشان عالم دین كی سوانح حیات كا مطالعہ كیااور كتاب ”خلاصة الاٴثر“ كے مطالعہ میںابو طالب كے واقعہ كی طرح ایك اور واقعہ ملا اور یہ بات سمجھ میں آئی كہ یہ واقعہ ابوطالب كے واقعہ سے بڑاگھرا تعلق ركھتا ھے او راگر غور وفكر كی جائے تو كسی نتیجہ پر پهونچا جاسكتا ھے۔

شیخ حرّ عاملی كا مكہ معظمہ میں ایك واقعہ اور اس سے متعلق فریب كاری

جب 1087ھ یا 1088ھ میں شیخ محمد بن الحسن معروف بہ حرّ عاملی مكہ معظمہ پهونچے، تو عثمانی تُركوں نے بعض ایرانیوں كو خانہ كعبہ میں گندگی پھیلانے كے جرم میں قتل كردیا، چنانچہ شیخ حرّ عاملی، سیدموسیٰ (مكہ كے حسینی اشراف میں سے) كی پناہ میں چلے گئے، اور سید موسیٰ نے ان كو كسی اپنے مورد اعتماد شخص كے ساتھ یمن بھجوادیا۔

صاحب خلاصة الاثر اس واقعہ كے ضمن میں اس طرح ذكر كرتے ھیں كہ یہ بھت بڑی ذلت اور رسوائی ھے، میں یہ تصور كرسكتا كہ اگر كسی شخص نے اسلام كی بُو یا عقل كی بُو بھی سونگھی هو تو وہ ایسا برا كام كرسكتاھے۔

واقعہ اس طرح ھے كہ خانہ كعبہ كے بعض خادموں نے دیكھا كہ كعبہ شریف ایك جگہ سے گندا هوگیا ھے اور یہ خبر مشهور هوگئی، اور اس كا ھر طرف چرچا هونے لگا، چنانچہ مكہ كی اھم شخصیات شریف بركات اور شریف مكہ، اور محمد میرزا قاضیٴ مكہ كے پاس گئے اور مذكورہ واقعہ كے بارے میں گفتگو هونے لگی، آخر كار ان كے ذہن میں یہ بات آئی كہ یہ كام رافضیوں كا ھے، اور یہ طے كرلیاكہ جو لوگ رافضی مشهور ھیں ان كو قتل كردیا جائے، چنانچہ اس سلسلہ میں فرمان صادر كردیاگیا۔

عثمانی تُرك اور بعض اھل مكہ مسجد الحرام میں آئے، اور پانچ شیعہ منجملہ ایك بوڑھے اور زاہد وعابد انسان سید محمد مومن كو قتل كردیا ۔

صاحب تاریخ مكہ مذكورہ واقعہ كے بارے میں اس طرح لكھتے ھیں كہ شوال1088ھ میں صبح كے وقت لوگوں نے خانہ كعبہ كو (پاخانہ مانندكسی چیز سے) گندا پایا، اور لوگوں نے ایك قدیمی عقیدہ كے تحت ”میں نھیں جانتا كہ كس طرح ان كی عقل اس طرح كے عقید ہ كی اجازت دیتی ھے“ شیعوں پر اس كام كا الزام لگادیا، چنانچہ عثمانی تُركوں اور بعض اھل مكہ نے مل كر شیعوں پر حملہ كردیا بھت سے لوگوں پر پتھراوٴ كیا اور چند لوگوں كو تہہ تیغ كر ڈالا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next