حكومت آل سعود



دوسرا نكتہ یہ ھے كہ عثمانی علماء جو بھی فتویٰ دیتے تھے وہ حكومت كے اشارہ اور اس كے حكم سے هوتا تھا جبكہ شیعہ تاریخ میںكبھی كوئی ایسا موقع نھیں آیا كہ كسی بادشاہ كے اشارے پر كسی عالم دین نے كوئی فتویٰ دیا هو، یا كسی شیعہ عالم دین نے بغیر سوچے سمجھے یا صرف تعصب اور اپنے احساسات یا قومی جذبات كی بناپر كوئی فتویٰ دیا هو۔

تیسرا نكتہ یہ ھے كہ عثمانی حكومت كے علماء اور طلاب، شیعوں كی معتبر كتابوں، تفسیر، فقہ وحدیث، اور كلام وغیرہ سے بھت كم آشنائی ركھتے تھے، اور شاید ان میں سے بھت سے لوگ یہ بھی نہ جانتے هوں كہ شیعوں كی فقہ كتنی وسیع اور اصیل (خالص) ھے،جب كہ اس كے برعكس قضیہ صادق ھے یعنی شیعہ علماء اور طلاب عمومی طور پر دیگر اسلامی مذاھب كی كتابوں سے بخوبی اطلاع ركھتے ھیں، ایران مذھب شیعہ كا مركز ھے،لیكن كبھی بھی دیگر مذاھب كی كتابوں كے مطالعہ پر كوئی پابندی نھیں ھے۔

آج یہ بات سب پر واضح اورآشكار ھے كہ ایران كی كتابفروشی (بك ایجنسی) اور كتب خانوں میں تمام اسلامی مذاھب كی كتابیں موجود ھیں اور كوئی بھی ان كا مطالعہ كرسكتا ھے، اس كے علاوہ تھران یونیورسٹی میں حنفی اور شافعی فقہ پڑھائی جاتی ھے كیونكہ ایران میں یہ دو مذھب موجود ھیں، مطلب یہ ھے كہ اگر عثمانیوں كے پاس شیعہ كتابیں هوتیں اورصرف حقیقت حال سے اطلاع كے لئے ان كی تحقیق كرتے تو پھر شیعہ مذھب كی حقیقت سے باخبر هوجاتے، نہ یہ كہ بعض اھل غرض كی تھمتوں اور گمان كی بنا پر شیعوں كے بارے میں كچھ كھتے۔

نتیجہ

مذكورہ مطلب كو بیان كرنے كا نھائی (آخری) مقصد یہ ھے كہ 1088ھ میں ایرانی حجاج كا قتل عام اور اسی طرح دوسرے واقعات كے پیش نظر، یہ بات مسلّم ھے كہ صفویہ سلطنت كے شروع میں حكومت عثمانی كے وسیع علاقوں میں خصوصاً حرمین شریفین میں ایرانیوں سے دشمنی كو هوا دی جاتی تھی اور طرح طرح كی ناروا اور جھوٹی تھمتیں لگاكر عثمانیوں كو دشمنی كے لئے ابھارا جاتا تھا، ان تھمتوں میں سے ایك نمونہ ابو طالب یزدی كا واقعہ تھا اور اس تھمت كی وجہ سے بھت سے ایرانی حجاج كا خون بھایاگیاھے۔

عبد العزیز كی موت

سلطان عبد العزیز اپنی عمر كے آخری دس سالوں میں بالكل اپاہج هوگیا تھا (یعنی چلنے پھرنے كی بھی طاقت نہ تھی)اور ویلچر كے ذریعہ ادھر ادھر جاتا تھا اور قلبی اور مغزی بیماری میں بھی مبتلا هوگیا تھا، 1953ء میں گرمی كا زمانہ طائف میں گذارنا چاھا، طائف كی آب وهوا معتدل اور بھت اچھی ھے لیكندریا سے اس كی اونچائی 1200 میٹر ھے اس وجہ سے یہ بات اس كے مزاج سے ھم آہنگ نھیں تھی اس كی حالت اور بگڑتی گئی اس كے مخصوص ڈاكٹر كے علاوہ جرمنی كے كئی ڈاكٹر بھی اس كے علاج میں لگے هوئے تھے لیكن كسی كا بھی علاج كارگر نہ هوا، اور دوم ربیع الثانی 1373ھ كواس دنیا سے رخت سفر باندھ لیا، اس كے جنازے كو هوائی جھاز كے ذریعہ ریاض لایا گیا اور وھیں پر دفن كر دیاگیا۔

ابن سعود كا اخلاق اور اس كی بعض عادتیں

”امین محمد سعید” جو ابن سعود سے آشنا افراد میںسے تھے اور اس كے اخلاق او رعادتوں سے بڑی حد تك آشنائی ركھتے تھے، انھوںنے ابن سعود كے اخلاق صفات اور روزانہ كے پروگرام كے بارے میں تفصیل سے بیان كیا ھے۔

ابن سعود ایك بلند قامت اور صحت مند انسان تھا منھ بھی بھت بڑا تھا اور جب غصے میں بولتے تھے تو ان كے منھ سے كف(جھاگ) نكلتا تھا، چھرہ كا رنگ گندمی اورتھوڑاكالا تھا، اس كی داڑھی كم اور ھلكی تھی اس كی ایك آنكھ میں تكلیف تھی اسی لئے خط یا كتاب پڑھتے وقت چشمہ كا استعمال كرتا تھا، یا اس خط كو آنكھوں سے بھت قریب كركے پڑھتا تھا، ابن سعود كے لئے خط پڑھنا بھت مشكل تھا، اس كے بدن میں بھت سے زخموں كے نشان پائے جاتے تھے، اور اس كی ایك انگلی فلج تھی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next