حكومت آل سعود



حافظ وھبہ صاحب كھتے ھیں كہ اس حقیقت كاانكار نھیں كیا جاسكتاھے كہ عثمانی افراد جنگجو اور فاتح تھے، لیكن اھل علم و ثقافت نھیں تھے بلكہ ھمیشہ جنگ وجدال اور ویران گری كرتے تھے، جس كی بنا پر ترك اور عرب علاقے جو ایك طولانی مدت تك ان كے زیر اثر رھے وہ پسماندگی كے عالم میں رھےبلكہ تنزّل ھی كرتے رھے، یھی وجہ تھی كہ عرب اور ترك كے آزادی خواہ افراد ایك دوسرے كے ساتھ متحد هوگئے اور مخفی طور پر كمیٹیاں بنانے لگے، اور آشوب برپا كرنے لگے، یھاں تك كہ سلطان عبد الحمید (سلطان عثمانی) كی حكومت ختم هوگئی اور عثمانی حكومت كی طرف سے قانونی حكومت كا اعلان هو گیا۔

عرب كے جوانوں كو یہ امید تھی كہ ھماری اس سر زمین میںقوانین كی وجہ سے كچھ اصلاحات انجام پائیں گی، لیكن ان كی امید كے برخلاف عثمانیوں نے اپنا رویہ ذرہ برابر بھی نھیں بدلا، اور گذشتہ زمانہ كی طرح عثمانی حكّام ،حاكم اور عرب محكوم رھے ،انھیں ان تمام وجوھات كی بناپر عربوں نے اپنے حقوق حاصل كرنے كی سوچی، اور مخفی كمیٹیوں كے علاوہ سیاسی پارٹیاں بھی بنائیں جن میں سے چند ایك اھم پارٹیاں اس طرح ھیں:

”جمعیت قَحطانی“ جو1909ء میں اسلامبول میں تشكیل پائی۔

”جمعیت عہد“ جوجمعیت قحطانی كا ایك حصہ تھی1913ء میں تشكیل پائی۔

”جمعیت لامر كزیہ“ جو1912ء میں مصرمیں سید رشید رضا اور ان كے ساتھیوں كے ذریعہ وجود میں آئی۔

چنانچہ آہستہ آہستہ ان جمعیتوں كے شعبہ جات دوسرے عربی شھروں میں بھی كھلنے لگے، مثلاً بغداد، دمشق، حلب، حمص، حماة اور بیروت وغیرہ میں ۔

1912ھ اور1913ھ میں عربی اور عثمانی اخباروں میں شدید مقابلہ بازی شروع هوگئی، بعض عثمانی مقالہ نگار اپنے مقالوں میں عربوں پر طعنہ كرتے تھے اور ان میں سے كچھ لوگوں پر جو اصلاحات كا دم بھرتے تھے اتھام اور تھمت لگاتے تھے كہ تم لوگ تو غیروں كے قبضے میں هو، اور ایسی جماعتوں انگریز ادارہ كررھے ھیں۔

ادھر عربی طالب علم پیرِس میں ایك انجمن بنانے كی فكر میں پڑگئے، اسی طرح مصر كی ”لامركزی جمعیت“ كو پیشكش كی كہ عربوں كو ان كے حقوق ملنے چاہئے، چنانچہ اس جمعیت كی شورائے عالی نے ان كی اس پیش كش كو قبول كرلیا، اور اپنی طرف سے كچھ نمائندے بھی پیرِس بھیج دیئے اور1913ء میں پیرِس كی جمعیت جغرافیائی كے بڑے ھال میں طلباء كی انجمن تشكیل پائی۔

ان تمام چیزوں كو دیكھتے هوئے عثمانیوں نے مزید شدت عمل اختیار كرلی اور بیروت میں بعض اصلاح طلب افراد كو گرفتار كرلیا، لیكن عوام كی طرف سے عكس العمل یہ هوا كہ بازاز بند هوگئے، چنانچہ عثمانیوں نے سوچا كہ كسی دوسرے راستہ كو اپنایا جائے اور وہ یہ كہ عربوں كے ساتھ ظاھری طور پر صلح ودوستی كی جائے لیكن اس كے ساتھ ساتھ كچھ دوسری تدبیریں بھی كی جائیں، اور ان كا یہ حیلہ كارگر بھی ثابت هوا، اوروہ یہ كہ خود اصلاح طلب لوگوں میں اختلاف هوگیا، مذكورہ تدبیر یہ تھی كہ ان میں سے بعض لوگوں كو بلند مقام دیا جائے مثلاً سید عبد الحمید زھراوی جو پیرس انجمن كے صدر تھے ان كو مجلس اعیان كا ممبر بنادیا گیا اور دوسرے چند اصلاح طلب جوانوں كو اھم كاموں میں مشغول كردیا گیا۔

ہ دیكھ كر عرب كے جوانوں میں ان كی نسبت غصہ بھڑك اٹھا اور انھوں نے یہ كہنا شروع كردیا كہ انھوں نے امانت میں خیانت كی ھے (جس كی وجہ سے ان لوگوں كو یہ بڑے بڑے عہدے مل گئے) جبكہ ھم لوگوںكو ان پر اعتماد تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next