حكومت آل سعود



شریف حسین1931ء تك قبرس میں رھے اور اسی سال بیمار هوئے اور جب ان كی بیماری بڑھتی گئی،وہ عَمّان (اپنے بیٹے امیر عبد اللہ كی حكومت كے پائے تخت) چلے گئے، اور اسی سال وھیں پر انتقال كیا اور بیت المقدس میں” قدس شریف قبرستان“ میں دفن كردئے گئے۔

ابن سعود مكہ میں

اس وقت مدینہ، جدّہ اور بندرگاہ ینبع كے علاوہ تمام سر زمین ابن سعود كے اختیار میں تھی، اور دونوں طرف سے نمائندوں كی آمد ورفت هوتی رھی تاكہ آپس میں صلح اوردوستی هوجائے لیكن كوئی نتیجہ نھیں نكلا۔ ابن سعود 10ربیع الثانی 1343ھ كو ریاض سے عمرہ كے لئے مكہ كی طرف روانہ هوا، اور دوسرے حكّام منجملہ امام یحيٰ یمن كے بادشاہ كو خط لكھا كہ اپنی طرف سے مكہ میںكچھ نمائندے بھیجےں تاكہ عالم اسلام كے تمام نمائندے ایك جگہ جمع هوكر یہ طے كریں كہ مسجد الحرام اور خانہ كعبہ كو سیاسی معاملات سے كس طرح دور ركھا جائے۔

ابن سعود كے ساتھ بھت سے سپاھی، علمائے نجد، اور محمد بن عبد الوھاب كے خاندان والے نیز دوسرے قبیلوں كے سردار بھی تھے، چوبیس روز كی مدت میں مكہ كے قریب پهونچے اور جس وقت عرفات پھاڑ كے علاقہ میں پهونچے تو ”ابن لُوٴی“ نے جو مكہ میں اس كے لشكر كا سردار تھا تقریباً ایك ہزار اخوان لوگوں كے ساتھ اس كے استقبال كوگیا۔

ابن سعود گھوڑے سے نیچے اترا، اور مسجد الحرام كی طرف چلا، وھاں پهونچ كر طواف كیا اور جس وقت وہ مكہ میں پهونچا تو ماہ جمادی الاول كی ساتویں تاریخ تھی۔

علمائے مكہ اور علمائے نجد میں مناظرہ

دوسرے روز مكہ كے علماء جن میں سب سے اھم شخصیت شیخ عبد القادر شیبی كلید دار خانہ كعبہتھے ابن سعود كے دیدار كے لئے آئے، ابن سعود نے علماء كو مخاطب كرتے هوئے ایك تقریر كی، جس میںمحمد بن عبد الوھاب كی دعوت كی طرف یاددھانی كرائی، اور كھا كہ ھمارے دینی احكام احمد بن حنبل كے اجتھاد كے مطابق ھیں، اور اگر آپ لوگ بھی اس بات كو مانتے ھیں تو آئےے آپس میں بیعت كریں كہ كتاب خدا اور سنت خلفائے راشدین پر عمل كریں۔

تمام لوگوں نے اس بیعت كی موافقت كی، اس كے بعد مكی علماء میں سے ایك عالم دین نے ابن سعود سے درخواست كی كہ كوئی ایسا جلسہ ترتیب دیں جس میں علمائے مكہ اور علمائے نجد اصول اور فروع كے بارے میں مباحثہ اور مناظرہ كریں، اس نے بھی اس پیش كش كو قبول كرلیا، اور 11 جمادی الاول كو پندرہ علمائے مكہ اور سات علمائے نجد ایك جگہ جمع هوئے اور كافی دیر تك بحث وگفتگو هوتی رھی اور آخر میں علمائے مكہ كی طرف سے ایك بیانیہ نشر كیا گیا جس میں یہ لكھا گیا تھا كہ اصول كے بارے میں ھم میں اور نجدی علماء میں كوئی فرق نھیں ھے منجملہ یہ كہ جو شخص اپنے او رخدا كے درمیان كسی كو واسطہ قرار دے كافر ھے، اور اس كو تین دفعہ توبہ كے لئے كھا جائے اگر توبہ نھیں كرتا تو اس كو قتل كردیا جائے، اسی طرح قبروں كے اوپر عمارت بنانا، وھاں چراغ جلانا قبور كے پاس نماز پڑھنا حرام ھے، اسی طرح اگر كوئی كسی غیر خدا كو اس كی جاہ ومنزلت كے ذریعہ پكارتا ھے تو وہ گویا بدعت كا مرتكب هوا ھے، اور شریعت اسلام میں بدعت حرام ھے۔

جدّہ پر قبضہ

تقریباً ایك سال تك یعنی ماہ جمادی الاول 1344ھ تك ابن سعود اور ملك علی كے درمیان جدّہ میں جنگیں هوتی رھیں، لیكن ماہ جمادی الاول كے آخر میں ملك علی نے جدّہ چھوڑنے اور اس كو ابن سعود كو دینے كا فیصلہ كرلیا، اور اس كام كے بدلے جدّہ میں انگلینڈ كے سفیر ”گُورْدون“ كے ذریعہ ابن سعود كو كچھ پیش كش كی گئی، چنانچہ پھلی جمادی الثانی كو ابن سعود اور انگلینڈ كے سفیر میں ملاقات هوئی اور سفیر نے ملك علی كی سترہ شرائط پر مشتمل پیش كش كو ابن سعود كے حوالہ كیا، اور ابن سعود نے ان شرائط كو قبول كرلیا، اس كے بعد چھارم جمادی الثانی كو سفیر نے ابن سعود كو خبر دی كہ ملك علی انگلینڈ كی ”كورن فِلاوِر“ نامی كشتی پر سوار هوكر عَدَن كے لئے روانہ هورھے ھیں اور وھاں سے عراق جانے كا قصد كرلیا،



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next