حكومت آل سعود



اس عہد نامے كی ترتیب اور تصدیق اس طرح تھی كہ پھلے علمائے ایران نے اس تحریر پر مھر لگائی اس كے بعد عتبات عالیہ كے (شیعہ سنی) علمائے نے مھر لگائی، اس كے بعد علمائے ماوراء النھر اور اس كے بعد علمائے افغان نے مھر لگائی اور سب سے آخر میں بغداد كے مفتی نے ایرانیوں كے اسلام كی تصدیق كی۔

عہد نامہ كی پوری تحریر ”جھان گشائے نادری “میں موجود ھے، لیكن اس عہد نامہ كی تفصیل عبد اللہ بن حسین سویدی بغدادی جو خود مذكورہ شیعہ سنی مناظرہ میں شریك تھے اور اس عہد نامہ پر دستخط بھی كئے تھے، انھوں نے اپنی دو كتابوں میں اس عہد نامے كی تفصیل بیان كی ھے، پھلی كتاب ”النفحہ المسكیة فی الرحلة المكیہ“ او ردوسری كتاب ”الحجج القطعیة لا تفاق الفرق الاسلامیہ“ یہ دونوں كتابیں مصرمیں چھپ چكی ھیں۔

اس عہد نامہ كی ایك كاپی حضرت امیر المومنین ں كی ضریح میں ركھ دی گئی، اور اس كی دوسری كاپیاں اسلامی ممالك بھیج دی گئیں، لیكن اس وقت كے چاپ شدہ نسخوں اور اس كتاب (جھان گشائے نادری) كے قلمی نسخے كے درمیان اختلاف پایا جاتا ھے اور ھم (مدیر مجلہ یادگار اور صاحب مقالہ مرحوم عباس اقبال) نے ان دونوں نسخوں میں فرق پایا ھے یعنی چاپ شدہ مقالہ میں بھت سی چیزیں كم ھیں، مثلاً ایران، عراق، عرب، افغانستان اور تركستان علماء كے نام اس كتاب (جھان گشائے نادری) میں نھیں ھے، دوسرے یہ كہ علمائے عراق كی تصدیق اصل عہد نامے سے مخلوط هوگئی ھے، تیسرے یہ كہ افغانی علماء كی تصدیق اس میں نھیں ھے اسی طرح احمد پاشا ،والی بغداد كی تصدیق اور مفتی بغداد آفندی یاسین كی مھر اور دستخط بھی اس میں موجود نھیں ھے۔

ھمارے (عباس اقبال) فاضل دوست آقای حاج” محمد آقا نَخْجَوانی“ جن كو طلب علم كا بھت شوق تھا انھوں نے اس عہد نامہ كو مكمل طور پر نقل كیا اور نشر كے لئے ھمارے مجلہ یادگار كو دے دیا۔

مذكورہ عہدنامہ كا مكمل نسخہ، حاج محمد آقا نخجوانی كے نسخہ سے ان علماء كے نام ،عہدہ ومنصب اور مھر كے ساتھ ھمارے مجلہ یادگار میں تقریباً 8 صفحات پر مشتمل چھپ چكا ھے، علماء كے نام اس طرح لكھے گئے ھیں، جائے مھر میرزا بھاء الدین محمد، كرمان كے شیخ الاسلام، یا جائے مھر سید حسینی، پیشنماز كاشان، جائے مھر میرزا ابوالفضل ،شیخ الاسلام قم، جائے مھر دخیل علی، قاضی كربلا، جائے مھر ملا حمزہ، شیخ الاسلام افغانستان، جائے مھر محمد باقر، عالمِ بخارا…تاآخر۔

قارئین كرام!آپ نے ملاحظہ فرمایا كہ اكثر علماء كا عہدہ شیخ الاسلام ھے اور بھت ھی كم ایسے علماء ھیں جو پیشنماز یا قاضی رھیں۔

لیكن عثمانی مولفین نے اس واقعہ كی تفصیل دوسرے طریقہ سے بیان كی ھے، چنانچہ شیخ رسول كركوكلی كھتے ھیں كہ نادر شاہ نے ”دشت مغان“ میں ایك بھت بڑی انجمن تشكیل دی، جس میںشیعوں كی حمایت كی اور اپنے كو شیعوں كا مدافع (دفاع كرنے والا) كھا، لیكن كرد، داغستان، ساكنان كوہستان (كوہستان سے كیا مراد ھے یہ معلوم نھیں هوسكا) اور افغانستان كے سبھی لوگ اس سے ناراض تھے، جس كے نتیجہ میں اس سے جنگ كرنے كا فیصلہ كرلیا، اور اس گھمسان كی لڑائی میں جو نادر شاہ سے هوئی نادر شاہ كے سپاھیوں كو شكست هوئی اور بھت نقصان هوا، نادر شاہ نے فریقین كا دل ركھنے كے لئے مرقد ابوحنیفہ، علی مرتضی (ں) امام حسین (ں) امام موسیٰ كاظم (ں) كے لئے بڑے قیمتی ہدایا اور تحائف بھیجے، اور یہ بھی اعلان كیا كہ اذان پانچ مرتبہ كھی جائے، اور جملہ ”حی علی خیر العمل“اذان سے نكال دیا جائے،ایساكُردیوںاور افغانیوں كا دل ركھنے كے لئے كیا، اور اس نے عثمانی سلطان كے لئے بھت سے ہد ایا اور تحائف بھی بھیجے۔

اس كے بعد كر كوكلی صاحب كھتے ھیں كہ نادر شاہ نے جنگ كے بعد ایك بار پھر دشت دمغان میں علماء كو جمع كیا تاكہ ان میں موجود اختلافات كو حل كیا جاسكے، جس كے نتیجے میں بادشاہ كی حقیقی طور پر بیعت اور اس كی حمایت هوئی۔

اس كے بعد نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ كیا اور سلطان محمد (تیموری خاندان كا حاكم) پر غلبہ حاصل كیا اور اس سے خراج لینا طے كیا، اس كے بعد تركستان، افغانستان، بلخ اور بخارے پر قبضہ كیا، اور ان لوگوں نے عثمانی سلطان سے جو عہد وپیمان كیا تھا اس كو توڑوا ڈالا، اور یہ ظاھر كیا كہ روم (یعنی حكومت عثمانی) پر بغداد كی طرف سے حملہ كرنے والا ھے چند افراد كو احمد پاشا والی بغداد كے پاس بھیجا، تاكہ اس كو اطلاع دے، اور احمد پاشا نے اس لحاظ سے كہ وہ اس كا مھمان ھے اس كے گذرنے اور وھاں توقف كرنے كی اجازت دیدی، اس وقت نادر شاہ نے كئی ہزار سپاھیوں كو كھانے پینے كا سامان لانے كے لئے بھیجا، اور اس طرح بغداد كا محاصرہ كرلیا، خلاصہ یہ كہ اس نے متعدد حملوں كے بعد پورے عراق پر قبضہ كرلیا، اور اس كے بعد عتبات عالیہ كی زیارت كرنے كے لئے گیا اور حضرت علی كے روضہ كی مرمت اور گنبد پر سونے كے پانی سے زینت كرنے كا حكم دے دیا اور اس كے بعد كربلائے معلی پهونچا اور یہ ظاھر كیا كہ میں تو اھل سنت سے تعلق ركھتا هوں، اور احمد پاشا كو خط لكھا كہ كسی اھل سنت عالم دین كو بھیج تاكہ شیعہ علماء سے مناظرہ كرے، اور دونوں فرقوں كے درمیان موجود اختلافات ختم هوجائیں، لہٰذا احمد پاشا نے عبد اللہ سویدی جو ان مسائل میں مھارت ركھتے تھے اور اس كے مورد اعتماد بھی تھے اس كام كے لئے انتخاب كیا۔

سویدی صاحب نے اپنے سفر كی تفصیل كتاب ” النفحة المكیہ والرحلة الملكیہ“ میں لكھی ھے ،او ركركوكلی نے اسی كتاب سے نقل كیا ھے، منجملہ یہ كہ جس وقت میں نجف میں نادر شاہ كے حضور پهونچا تو اس نے مجھے خوش آمدید كھا، مجھے اس كی عمر 80سال كی لگی، اور پروگرام كے مطابق یہ اجتماع حضرت علیں كے روضہ میں هو، اس كے بعد كركوكلی نے سویدی سے ذكر هوئے ناموں كو اس طرح لكھا كہ ایرانی علماء میںسے علی اكبر ملا باشی ،وغیرہ وغیرہ تھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next