حكومت آل سعود



اس كے بعد عبد اللہ نے اپنے جنگجو لوگوں اور عبد الرحمن كے ساتھ ریاض كی طرف حركت كی، ادھر سعود كی اولاد بغیر كسی جنگ كے ریاض چھوڑ كربھاگی، عبد اللہ نے ریاض پر قبضہ كرلیا، عبد الرحمن اور اس كا دوسرا بھائی محمد ،عبد اللہ كے كسی كام میں مخالفت نھیں كرتے تھے۔

اس كے بعد سے1308ھ تك آل سعود كی حالت مختلف جنگوں او رفسادات كی وجہ سے بھت زیادہ بحرانی رھی، جن كی بناپر وہ ضعیف او ركمزور هوتے چلے گئے، جس كے نتیجہ میں آل رشید ان پر غالب هوگئے اور محمد بن عبد اللہ الرشید نے ریاض پر قبضہ كرلیا اور نجد كی حكومت اپنے ھاتھوں میں لے لی،اور عبد الرحمن اپنے اھل خانہ كے ساتھ جن میں اس كا جوان بیٹا عبد العزیز الرشید بھی تھا كویت كی طرف روانہ هوئے، لیكن محمد الصباح شیخ كویت نے ان كو كویت میں داخل هونے سے روك دیا، مجبوراً عبد الرحمن نے نجد كے دیھاتی علاقہ (الرّبع الخالی) كا رخ كیا اور پھلے بنی مُرّہ پھر قبیلہ عجمان (جو اپنے كو ایرانی الاصل مانتے تھے) كے یھاں قیام كیا اور اس كے بعد قطر كی طرف حركت كی اور دومھینہ وھیں قیام كیا۔

سلطان عبد الحمید (عثمانی سلطان)نے عبد الرحمن سے دوستی كا ارادہ كرلیا، اس نے ھر مھینہ سونے كے ساٹھ لیرے عبد الرحمن كے لئے معین كئے اور پھر امیر كویت نے اس كو پناہ دیدی، اور عبد الرحمن قطر سے كویت پهونچ گئے، او روھیں پر رھے یھاں تك كہ اس كے بیٹے عبد العزیز (جیسا كہ بعد میں شرح دی جائے گی) نے سر زمین نجد كو اس افرا تفری كے ماحول سے نجات دی او رعربی سعودی حكومت تشكیل دی۔

صلاح الدین مختار صاحب، امین ریحانی سے نقل كرتے ھیں كہ حاكم احساء نے سلطان عثمانی كی طرف سے ڈاكٹر زخور عازار لبنانی كے ذریعہ عبد الرحمن كو پیغام بھیجا كہ اگر تم سلطان كی اطاعت كا اعلان كرو تو تمھیں ریاض كی حكومت مل جائے گی، لیكن عبد الرحمن نے اس پیشكش كو قبول كرنے سے عذر خواھی كی۔

عبد العزیز بن عبد الرحمن معروف بہ ابن سعود

جس وقت عبد العزیز او راس كے باپ عبد الرحمن كویت میں رھتے تھے، انگلینڈ كی حكومت نے عرب كے شیوخ كی خوشنودی كے لئے سلطان عثمانی سے بھت سخت مقابلہ اورجنگ كی۔

عبد الحمید دوم سلطان عثمانی، نے احساس كیا كہ شیخ كویت انگلینڈ كی طرف مائل ھے، یہ دیكھتے هوئے اس نے عبد العزیز الرشید امیر شمّر كی مدد كے لئے ھاتھ بڑھایا جو شیخ كویت كا دشمن تھا، اور عبد العزیز الرشید كو خبر دی كہ اگر وہ كویت كو اپنے علاقوں میں ملحق كرنا چاھتے ھیں تو اس كو كوئی اعتراض نھیں ھے، یہ سن كر عبد العزیز الرشید بھت خوشحال هوئے، كیونكہ اس كا عقیدہ یہ تھا كہ اگر اس بندرگاہ كو بھی اپنے علاقوں میں شامل كرلے گا تو حكومت آل رشید مستحكم اور مضبوط هوجائے گی، اور اسی چیز كے پیش نظر1900ء(1317ھ) میں شَمّر كے جنگجووٴں كے ساتھ كویت پر حملہ كے لئے تیار هوگیا۔

امیر كویت چونكہ اس سے مقابلہ كی طاقت نھیں ركھتا تھا لیكن اس كے پاس مال ودولت بھت تھی اسی وجہ سے عشایر عَجمان، ضُفَیر اورمنتفق كو اپنے ساتھ میں لے لیا اور آل سعود سے بھی نصرت اور مدد چاھی اور ان كو وعدہ دیا كہ ریاض كی حكومت ان كو واپس كردیگا، ادھر عبد العزیز بن عبد الرحمن كو بھی اپنے ارادے سے آگاہ كیا، آخر كار شیخ مبارك بن الصباح امیر كویت اور عبد الرحمن آل سعود اور اسكے بیٹے عبد العزیز نے میٹنگ اور آپس میں صلاح ومشورہ كیا، جس میںیہ طے پایا كہ ابن الرشید كا خاتمہ كردیا جائے۔

1318ھ میں طرفین میں سخت جنگ هوئی، اور امیر كویت كو بھت بری ھار كا منھ دیكھنا پڑا، اور ابن الرشید نے كویت كے دروازہ تك حملہ كیا لیكن اچانك اس كو پیچھے ہٹنا پڑا كیونكہ دریائی راستہ سے انگلینڈ كی سپاہ اس كے راستہ میں آگئی، چنانچہ انگلینڈ كی فوج كے سردار نے اس سے نصیحت كے طور پر كھا كہ پلٹ جانے میں ھی تمھاری بھلائی ھے، او راگرتم نے اس كے علاوہ كوئی قدم اٹھایا تو ھم تمھیں اپنی بڑی بڑی او رپر قدرت توپوں كے ذریعہ نیست ونابود كردیں گے، او رتمھارے تمام ساتھیوں كو ھلاك كردیں گے، ابن الرشید نے عثمانی حكومت سے مدد طلب كی، لیكن ادھر استامبول اور لندن میں پھلے سے عہدوپیمان هوچكا تھااور لندن نے عثمانی حكومت كو ابن الرشید كی مدد نہ كرنے پر قانع كردیا تھا۔

ان واقعات سے اصل فائدہ انگلینڈ نے اٹھایا اس نے اپنے لئے خلیج فارس میں ہندوستان كے راستہ میں اپنے رہنے كا ٹھكانہ بنالیا، او رشیخ كویت كو بھی حملوں كے خطرات سے امان مل گئی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next