حكومت آل سعود



افغانستان كے علماء میں سے شیخ فاضل ملا حمزہ قلی جائی، جوافغانستان میں حنفی مفتی تھے، اور وھاں كے دیگر علماء كے نام اور ان كے عہدے بھی لكھے ھیں۔

اس كے بعد علمائے ماوارء النھر كے نام ھیں جن كی تعداد سات تھی اور یہ لوگ سویدی كے داھنی طرف بیٹھے تھے اور اس كے بائیں طرف 15 شیعہ علماء تشریف فرما تھے۔

اس وقت ملا باشی نے ایك تقریر كی اور سویدی كی طرف اشارہ كرتے هوئے كھا: یہ علمائے اھل سنت كے فاضل علماء میں سے ھیں، اور نادر شاہ نے احمد پاشا سے یہ چاھا كہ انھیںھمارے درمیان فیصلہ كرنے كے لئے بھیجے اور شاہ كی طرف سے وكیل بنا یا گیا كہ جو بھی اس اجتماع میں طے پائے اس پر عمل كیا جائے، كركوكلی صاحب نے سویدی سے نقل كرتے هوئے علماء كے درمیان هونے والی گفتگو كی تفصیل بھی بیان كی ھے، چنانچہ اس گفتگو كا نتیجہ اس طرح بیان كرتے ھیں كہ اھل سنت علماء نے اس بات كی تصدیق كی كہ شیعہ لوگ، مسلمان ھیں، اور ان كا نفع ونقصان ھمارا نفع ونقصان ھے، یہ طے كرنے كے بعد سب لوگ اپنی جگہ پر كھڑے هوگئے اور ایك دوسرے سے مصافحہ كرنے لگے اور یہ كھتے جاتے تھے: ”اھلاً باخی“(میرے بھائی خوش آمدید)۔

اس كے دوسرے دن بھی مذكورہ جگہ پر جمع هوئے اور ایك جریدہ تیار كیا گیاجس كی لمبائی 7 بالشت سے زیادہ تھی اور اس كے دو حصوں پر عہد نامہ لكھا گیا، ملا باشی نے آقا حسن مفتی سے كھا كہ كوئیایسا شخص اس كو پڑھے جو فارسی زبان جانتا هو۔

كركوكلی صاحب نے اس عہد نامے كو عربی زبان میں لكھا ھے اور سویدی كے بعض اعتراض بھی لكھے ھیں، نیز اس كے قول كو نقل كرتے ھیں كہ ان لوگوں كے نام اس میں لكھے ھیں جنھوں نے اس پر اپنی مھر لگائی ھے، او راس كے بعد سونے كے ظروف میں جو جواھرات سے مزین تھے، مٹھائی لائی گئی، اس كے بعد مجھے شاہ كے پاس لے گئے (سویدی نے اپنی كتاب میں ان باتوں كو ذكر كیا ھے جو اس كے اور شاہ كے درمیان هوئی ھیں)اور اس نے احوال پرسی، كے بعد كھا:

”كل جمعہ ھے اور میں یہ چاھتا هوں كہ نماز جمعہ كو مسجد كوفہ میں پڑھوں، اور میں نے فرمان دیدیا ھے كہ صحابہ كے نام بڑے ادب واحترام كے ساتھ اسی ترتیب سے ذكر كئے جائیں جس طرح كہ طے هوا ھے، اور میں نے یہ حكم بھی دیا ھے كہ بھائی سلطان آل عثمان كے لئے دعا كی جائے او راس كے بعد مختصر طور پر ھمارے لئے بھی دعا كی جائے، او رگویا یہ سلطان عثمانی كے احترام كی وجہ سے ھے كیونكہ وہ سلطان بن سلطان ھے، جبكہ میرے باپ دادا میں كوئی سلطان نھیں تھا،قارئین كرام!ھم نے جو كچھ كركوكلی كی باتوں كو خلاصہ كے طور پر نقل كیا ھے اگرچہ بعض تاریخی چیزیں غلط اور اشتباہ ھیں لیكن پھر بھی بھت سے اھم تاریخی نكات اس بیان میں موجود ھیں، خصوصاً اگر ان تمام باتوں كی تحقیق كی جائے۔

مذكورہ مطلب سے متعلق چند نكات

ہ بات تاریخی اعتبار سے مسلم ھے كہ نادر شاہ نے شیعہ اور سنی كے درمیان اتحاد اور دوستی قائم كرنے كے لئے بھت كوشش كی، لیكن سلاطین عثمانی كی دشمنی اور عناد اس قدر زیادہ تھی (جیسا كہ بعض نمونے بیان بھی هوئے ھیں) كہ نادر شاہ كی كوشش ثمر بخش نہ هوسكی۔

چنانچہ یھاں پر چند نكات كی طرف اشارہ كرنا مناسب ھے:

پھلا نكتہ یہ كہ تاریخ شیعہ میں چاھے صفویہ زمانہ هو یا دیگر زمانہ، كوئی بھی ایسا شیعہ عالم نھیں مل پائے گا جس نے اسلامی فرقہ سے جنگ كو جھاد كا نام دیا هو، یا كسی ایك اسلامی سر زمین كو دار الحرب كا نام دیا هو، یا اسلامی مذاھب كے پیروكاروں كو كافر كھا هو۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next