حكومت آل سعود



ملك سعود كی بیعت كا پروگرام مكہ معظمہ میں ركھا گیا اور اس نئے بادشاہ سے بیعت كرنے كے لئے مختلف علاقوں سے تقریباً ہزاروں لوگ جمع هوئے، چنانچہ اھل مكہ نے علماء اور قضات اور اھم شخصیات كے ساتھ ایك تاریخی عہد نامہ لكھا جس میں شرعی طور پر بیعت كی گئی تھی۔

مذكورہ عہد نامہ كی تحریر اس طرح ھے:

”یا امام المسلمین الملك سعود بن عبد العزیز بن عبد الرحمٰن الفیصل آل سعود المتوفی یوم الاثنین 2 ربیع الاول سنة1373۔

قد عہد الامانة من بعدہ الیكم واخذت لكم البیعة فی عام 1352 فان امامتكم بذالك منعقدة وثابتة شرعاً، واننا بمناسبة وفاة والدكم عبد العزیز وتولیكم امامة المسلمین من بعدہ نجدد ونوكد بیعتكم اللتی فی اعناقنا علی العمل بكتاب اللّٰہ وسنة رسولہ، واقامة العدل فی كل شئي وتحكیم الشریعة الاسلامیہ ولكم علینا السمع والطاعة فی العسر والیسر والمنشط والمكرہ، ونسال اللّٰہ لكم العون والتوفیقفیما حملتم من امور المسلیمن وان یحقق علی ایدیكم ما ترجوہ الامة الاسلامیة من مجد وتمكینٍ“۔

چنانچہ ان تمام باتوں كے بعد مفتی بزرگ كی ریاست میں ریاض اور دیگر شھر و دیھات كے علماء نے ابن سعود كے ھاتھوں پر بیعت كی اور اس كی اطاعت كرنے كے بارے میں اقرار كیا۔

5ربیع الاول 1373ھ پنجشنبہ كو غروب كے وقت ابن سعود مسجد الحرام گیا اور نماز مغرب كی نماز جماعت قائم كرنے كو اپنے ذمہ لیا، اور اس كے بعد خانہ كعبہ كا طواف بجالایا، او ردعا كی، نیز ایك تقریر كی جس میں اپنی حكومت كے منصوبوں كو چاھے وہ اندرونی هوں یا بیرونی سب لوگوں كے سامنے بیان كئے۔ ملك سعود نے اپنی سلطنت كے زمانہ میں اپنے ملك كی ترقی كے لئے بھت كوششیں كیں، بھت سے مدرسے اور ھاسپیٹل، بھت سی سڑكیں اور پل وغیرہ بنائے۔

ابن سعود كے اھم كاموں میں سے مسجد الحرام اور مسجد النبی میں توسیع كرنا ھے جس میں ان دونوں مسجدوں كے قرب وجوار كی زمینیں خرید كر مسجدوں سے ملحق كردی، اور دونوں مساجد كے چاروں طرف بڑی بڑی سڑكیں بنوادیں، اس طرح سے كہ اب كوئی بھی عمارت مسجد كی دیوار سے ملی هوئینھیں ھے ۔

مسجد النبی كی توسیع شوال 1370ھ میں شروع هوئی اور ابن سعود كے زمانہ میں مكمل هوئی، چنانچہ اس توسیع اور مرمت كے بعد اس مسجد كی وسعت 16327 میٹر هوگئی ھے۔

اسی طریقہ سے ابن سعود كے زمانہ میں ڈرائیورنگ كے قوانین كا بنانا بھی ھے، او روہ بھی اس طرح كہ اگر كوئی ان قوانین كی خلاف ورزی كرے تو اس كو ایك سال قید كی سزا ھے، اور اگر كسی ڈرائیور كی غلطی كی وجہ سے كوئی شخص مرجائے تو اس كو پھانسی پر لٹكایا جاتا ھے، چنانچہ ان سخت قوانین نے تمام سیاسی لوگوں اور ڈپلومیٹ كو خوف ووحشت میں ڈال دیا تھا۔

1961ء مطابق1381ھ ملك فیصل جو ابن سعود كا ولیعہد اور رئیس الوزراء بھی تھا وہ بادشاہ كا قائم مقام هوگیا اور ایك مدت كے بعد شورائے مشایخ اور مختلف قبیلوں كے سردار اورعلماء كی پیشكش پر بادشاھت كے تمام اختیارات اس كو دیدئے گئے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next