اجر عظیم



پارہ نمبر ۲۴‘ سورة مومن آیت ۶۰ کی وضاحت کو اگر غور سے پڑھ لیا جائے تو آنکھیں کھل جائیں گی:

"اور تمھارے پروردگار نے کہا کہ مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں انھیں ذلت کی زندگی کے ساتھ جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا"۔

ان آیات کی روشنی میں ضروری ہے کہ بندہ اپنے خالق سے مانگتا رہے‘ نعمتیں ملنے پر شکر ادا کرتا رہے اور جملہ آفات و بلیات سے محفوظ رہے ۔ ہر دعا کرنے والا اپنے ذہن میں راسخ کر لے کہ دعا کے لغوی معنی بلانے اور پکارنے کے ہیں اورنظریہ معرفت میں علامہ اقبال نے کہا:

"وہ جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے وہ ہم سے اور ہماری دنیا سے بے تعلق نہیں ۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں اُسی سے کہتے ہیں وہ کہتا ہے مجھ ہی سے دعا کرو میں تمہاری دعا سنتا ہوں اور اس کا جواب دیتا ہوں ۔ فی الحقیقت زندگی کیا ہے…؟ ایک مسلسل دعا ہے ۔

(بحوالہ اقبال کے حضور‘ اقبال اکادمی پاکستان)

تمام انبیاء علیہم السلام خدا کے تصور کے مبلغ تھے‘ جب وہ پوری کائنات پر محیط ہے اور ذرے ذرے کا علم رکھتا ہے‘ سمیع وبصیر ہے تو پھر بے تعلق نہیں رہ سکتا ۔ بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور قبول کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تورات‘ انجیل‘ زبور اور قرآن مجید میں انبیاء کی دعائیں موجود ہیں ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میدانِ بدر میں دعا مانگی:

اللھم انجزنی ما وعدتنی اللھم انشرک عھدک ووعدک

"اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اُسے پورا فرما‘ اے اللہ! میں تیرے عہد اور تیرے وعدے کا سوال کرتا ہوں"۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 next