تيسری فصل



انصار کا ایک گروہ اٹھا اور گویا ہوا، ان میں سب سے پہلے ثابت بن قیس بن شماس انصاری جو کہ رسول کے خطیب تھے کھڑے ہوئے اور کہا کہ: خدا کی قسم اے امیر المومنین! اگرچہ انھوں نے آپ پر خلافت میں سبقت حاصل کرلی، لیکن دین الٰہی میں پہل نہ کرسکے گو کہ انھوں نے کل آپ پر سبقت حاصل کرلی، لیکن آج آپ کو ظاہری حق مل گیا، وہ لوگ تھے اور آپ تھے لیکن کسی پر بھی آپ کا مقام پنہاں نہیں تھا، وہ جس کا علم نہیں رکھتے تھے اس میں آپ کے محتاج تھے، اور آپ اپنے بے کراں علم کے سبب کبھی کسی کے محتاج نہیں رہے۔

اس کے بعد خزیمہ بن ثابت انصاری ذوالشہادتین (جن کی ایک گواہی دو کے برابر رسول خدا نے قرار دی تھی) کھڑے ہوئے اور عرض کی: یا امیر المومنین ہم نے خلافت کو آپ کے علاوہ کسی کے حوالے سے قبول نہیں کیا، آپ کے سوا کسی کے پاس نہیں گئے، اگر ہم سچے ہیں تو آپ ہماری نیتوں سے بخوبی واقف ہیں، آپ لوگوں میں ایمان پر سبقت رکھتے ہیں، احکام الہٰی کے سب سے بڑے عالم ہیں، رسول خدا کے بعد مومنین کے مولا ہیں، جو آپ ہیں وہ، وہ کہاں! اور جو وہ ہیں، وہ آپ جیسے کہاں!

صعصعة بن صوحان کھڑے ہوئے اور عرض کی: خدا کی قسم اے امیر المومنین! آپ نے خلافت کو زینت بخشی ہے خلافت نے آپ کی زینت میں کوئی اضافہ نہیں کیا، آپ نے خلافت کو بلندی عطا کی اس نے آپ کو رفعت نہیں دی، یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ خلافت آپ کی محتاج ہے۔[28]

سخت ترین مرحلہ!

عثمان Ú©Û’ روح فرسا دوران خلافت Ú©Û’ اختتام Ú©Û’ بعد شیعیان علی  Ú©Û’ عروج کا زمانہ تھا، لوگوں Ú©ÛŒ ہجومی اور ازدحامی بیعت Ù†Û’ حضرت علی  Ú©Ùˆ سریر آراء سلطنت کیا اور زمام حکومت آپ Ú©Û’ سپرد کی، جس Ú©ÛŒ منظر Ú©Ø´ÛŒ خود امیر المومنین Ù†Û’ یوں Ú©ÛŒ ہے ”لوگوں کا ازدحام مجھ پر ایسے ٹوٹ پڑا جیسے پیاسے اونٹ کا غول گھاٹ پر ٹوٹ پڑتا ہے گویا ان Ú©Û’ چرواہے Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ آزاد اور بے مہار Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیا ہو لگتا تھا کہ یہ بھیڑ مجھے یا میرے کسی فرزند Ú©Ùˆ ختم کرڈالے گی۔[29]

مگر اس محبت کا دکھاوا اس وقت بالکل بدل گیا جب بعض اصحاب Ù†Û’ حضرت علی  سے گفتگو Ú©ÛŒ اور علی  Ù†Û’ اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ ہم قانون حکومت Ú©Ùˆ فرمان رسول  Ú©Û’ مثل بنانا چاہتے ہیں یعنی سب لوگ عطا Ùˆ بخشش میں مساوی ہیں اور کسی قسم کا امتیاز نہیں رکھتے، اور یہ وہی کیفیت تھی جس Ú©ÛŒ بنیاد عمر Ù†Û’ رکھی تھی اور یکسر بدل ڈالا تھا اور عثمان Ù†Û’ آکر من Ùˆ عن اس Ú©ÛŒ پیروی Ú©ÛŒ تھی خاص طور سے عثمان Ú©Û’ وہ اہلکار جو بداخلاقی Ú©Û’ شکار تھے ان Ú©ÛŒ معزولی (ایک اہم مسئلہ تھا) لہٰذا تنور جنگ بھڑک اٹھا اور حضرت Ú©ÛŒ خلافت Ú©Û’ آخری لمحات تک جو تقریباً پانچ برسوں پر مشتمل تھا شعلہ ور رہا۔

اور یہ پیس دینے والی جنگوں Ú©ÛŒ خلیج، جمل Ùˆ صفین Ú©Û’ دنوں تک باقی رہی اور ان جنگوں Ù†Û’ اکثریت کواپنی لپیٹ میں Ù„Û’ لیا حضرت Ú©Û’ مخلص اور صحیح عقیدے Ú©Û’ شیعہ صرف انگشت شمار ہی رہ گئے، صرف تھوڑے سے افراد Ú©Û’ سوا سب حالات Ú©Û’ تیز دھارے میں بہہ گئے، اور حالات بہت ہی غیر مساعد ہوگئے اور جو بچ گئے ان Ú©ÛŒ تعداد بہت زیادہ نہیں تھی جو اتباع Ùˆ پیروی Ùˆ اخلاص میں کھرے اتریں، جنگ Ù†Û’ ان سب Ú©Ùˆ بدبیں کردیا تھا، جس Ú©Û’ سبب جنگ بندی Ú©ÛŒ پہلی دھوکہ باز آواز پر ان لوگوں Ù†Û’ لبیک کہا (اور جنگ بند کردی) جب امیر المومنین  Ù†Û’ اس سازش کا پردہ چاک کر Ú©Û’ ان Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ ارادوں سے باز رکھنا چاہا، تو ان لوگوں Ù†Û’ مخالفت Ú©ÛŒ اس حد پر قدم رکھ دیا تھا کہ حضرت علی  Ú©Û’ قتل، یا دشمن Ú©Û’ سپرد کرنے Ú©ÛŒ دھمکی تک دے دی تھی، ان Ú©ÛŒ نیتوں Ú©Û’ پیش نظر عقب نشینی Ú©Û’ سوا کوئی چارہ نہیں تھا، کیا یہ لوگوں Ú©Û’ روگردانی Ú©ÛŒ انتہا نہ تھی۔

کیونکہ انھوں نے واقعہ تحکیم کے سلسلہ میں بہت جلد ندامت و خطا کا اظہار کیا تھا اور اکثریت کی بقاء پر اس امر کا علاج سوچا اور اپنے نفسوں سے کیئے وعدہ کی وفا چاہی یعنی جنگ میں واپسی، ان افراد کی گر گٹ کے مانند آراء کی تبدیلی، اس بات کی غماز ہے کہ یہ لوگ صاحبان بصیرت نہیں تھے اور نہ ہی حضرت علی کے شیعہ تھے بلکہ انھوں نے علی کی شیعیت کا خول چڑھا رکھا تھا اور ان کے عقیدوں میں کسی قسم کی پختگی نہیں تھی اور ان کی یہ حرکتیں اجتہادی اصحاب کی راہ و روش کی مکمل پیروی تھی، جو اولی الامر حضرات کے حکم کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے تھے اور اس اجتہادی اسلحہ کی ضرب اتنی کاری تھی کہ ذات رسالت کے حکم کا انکار ممکن بنا ڈالا۔

اس باغی گروہ Ú©ÛŒ سرکشی، مزید پیچیدہ ہوگئی جب خود امیر المومنین  کواسی دو راہے پر لاکر کھڑا کر دیا کہ آپ ان مخالفین سے جنگوں کا سلسلہ شروع کریں جنھوں Ù†Û’ Ú©Ú†Ú¾ علاقوں میں فساد مچا رکھا تھا اور بے گناہوں Ú©Ùˆ قتل کیا تھا۔

اور نتیجہ اس وقت زیادہ ہی جان لیوا ہوگیا کیونکہ اس جنگ نے آپ کے چاہنے والوں کی قوت کو مضمحل کردیا اور روز بروز وہ سستی و تساہلی کے شکار ہونے لگے اور جہاد کی جانب امیر المومنین کا رغبت دلانا بے سود ہوگیا، جو لوگ آپ کے خاص شیعہ بچ رہے تھے ان کے ارادوں کے تجدید کی ضرورت تھی، اوراس وقت تو قیامت کبریٰ ٹوٹ پڑی جب ایک جہنمی نے آپ کو عبادت کی حالت میں محراب میں شہید کر دیا۔

تاکہ خالص شیعہ Ú©Û’ تربیتی مرکز Ú©Ùˆ ختم کرسکیں اس سبب آپ Ú©Û’ بڑے فرزند حضرت حسن مجتبیٰ  Ú©Û’ پاس ان Ú©Û’ دور حکومت میں قیام Ú©Û’ اس عظیم بوجھ Ú©Ùˆ اٹھانے Ú©Û’ لئے کوئی سہارا نہیں تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next