تيسری فصل



جب مامون نے حکومت سنبھالی تو علویوں سے محبت کا دکھاوا کیا اور علی بن موسیٰ الرضا کو بلاکر جبراً ولی عہدی دی اس کے بعد زہر دے کر شہید کرا دیا۔

عباسی حکمرانوں کی عادات قبیحہ جڑ پکڑ گئیں اور ائمہ علیہم السلام کو اس کا نشانہ بنایا اور زندہ و مردہ سب پر ظلم کیا۔

(Û±) (Û²)(Û³)

چنانچہ متوکل Ù†Û’ قبر امام حسین  پر ہل چلوا دیئے اور پانی بھروا دیا اور لوگوں Ú©Ùˆ آپ Ú©ÛŒ زیارت سے منع کردیا بلکہ مسلح افراد Ú©Û’ ذریعہ ناکہ بندی کرادی کہ کوئی شخص بھی امام حسین  Ú©ÛŒ زیارت Ú©Ùˆ نہ جائے اور اگر جائے تو فوراً اس Ú©Ùˆ گرفتار کر لیا جائے۔

متوکل Ù†Û’ اہلبیت  Ú©Û’ خلاف قید Ùˆ بند Ú©ÛŒ سیاست اختیار کی، عمر بن الفرج Ú©Ùˆ مکہ Ùˆ مدینہ کا مختار Ú©Ù„ بنادیا، اور فرزندان ابوطالب پر کڑا پہرہ بٹھا دیا کہ یہ لوگوں سے میل جول نہیں رکھ سکتے اور لوگوں پر پابندی لگادی تھی کہ ان Ú©Û’ ساتھ حسن رفتار نہ کریں اور کوئی اس وقت ایک شخص بھی کسی قسم Ú©ÛŒ معمولی سی بھی ان Ú©ÛŒ اطاعت نہیں کرسکتا تھا، مگر یہ کہ سختی جھیلے اور نقصان اٹھائے، بلکہ انتہا یہ تھی کہ سیدانیوں Ú©ÛŒ ایک جماعت Ú©Û’ پاس صرف ایک پیراہن ہوتا تھا جن میں باری باری نماز ادا کرتی تھیں اس Ú©Û’ بعد اس پر پیوند لگا تی تھیں اور چرخہ Ú©Û’ پاس سر برہنہ بیٹھ جاتی تھیں۔[37]

جب مستعین باللہ حاکم ہوا تو اس Ù†Û’ یحییٰ ابن عمر بن حسین Ú©Ùˆ قتل کردیا، جن Ú©Û’ بارے میں ابوالفرج اصفہانی Ù†Û’ کہا ہے کہ: وہ بہادر، دلیر، قوی الجثہ، نڈر، جوانی Ú©ÛŒ غلطیوں سے پاک شخص تھا اس کا مثل نہیں مل سکتا، جب ان کا سر بغداد میں لایا گیا تو اہل بغداد مستعین Ú©Û’ خلاف چیخنے Ù„Ú¯Û’ØŒ ابوحاتم علی بن عبد اللہ بن طاہر داخل ہوئے اور کہا کہ: اے امیر! میں تجھے اس شخص Ú©ÛŒ موت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اگر رسول خدا  زندہ ہوتے تو ان Ú©Ùˆ اس حوالے سے تعزیت پیش کرتا، یحییٰ Ú©Û’ دوستوں Ú©Ùˆ قیدی بنا کر بغداد میں لایا گیا، اس سے قبل کسی اسیر Ùˆ قیدی کارواں Ú©Ùˆ اس بدحالی اور بگڑی کیفیت میں نہیں دیکھا گیا تھا، وہ لوگ ننگے پیر زبردستی پھرائے جارہے تھے اگر ان میں سے کوئی پیچھے رہ جاتا تواس Ú©ÛŒ گردن اڑادی جاتی تھی۔[38]

کئی صدی تک شیعوں نے چین کا سانس نہیں لیا، مگر جب بہائی حکمراں کا دور ۳۲۰ھء میں آیا اور انھوں نے بعض اسلامی ممالک کی باگ ڈور سنبھالی تو سکون ملا، یہ اخلاق کے بہت اچھے تھے، انھیں کے دور حکومت میں شیعی ثقافت نے نمو پائی، یہاں تک سلجوقیوں کا دور آیا اور وہ ۴۴۷ھء میں بغداد کے حکمراں بن گئے ان کا سردار طغرل بیگ تھا اس نے شیعہ کتب خانہ کو نذر آتش کا حکم دے دیا اور شیعوں کے مرجع شیخ طوسی جس کرسی پر بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے، اس کو بھی جلوایا، اس کتب خانہ کو بھی نذر آتش کردیا ،جسے ”ابونصر سابور بن اردشیر “نے مرتب کیا تھا جو بہاء الدولہ البویھی کے وزیر تھے، وہ وقت بغداد میںعلم کا دور تھا، اس وزیر جلیل نے کرخ میں اہل شام کے محلہ میں ۳۸۱ھ ء میں ہارون کے بیت الحکمہ کی مانند اس کتب خانہ کو بنایا تھا یہ بہت اہمیت کا حامل کتب خانہ تھا، اس وزیر نے اس میں ایران و عراق کی ساری کتابیں جمع کردی تھیں، اہل ہند، چین، روم کے مولفین کی کتابوں کو جمع کردیا تھا ان کی تعداد تقریباً دس ہزار تھی جو عظیم آثار اور اہم سفر ناموں پر مشتمل تھی، اس میں موجود اکثر کتابیں مولف کی ہاتھوں کی لکھی ہوئی اصل خط میں تھیں، ان کتب میں ابن مقلة کے ہاتھوں کا لکھا مصحف بھی تھا۔[39]

یاقوت حموی اس کتاب خانہ کی تعریف میں کہتا ہے کہ: پوری دنیا میں اس سے بہتر کتابیں نہیں تھیں اس کی ساری کتابیں معتبر ذمہ داروں کے خط اوراصول تحریر پر مشتمل تھیں۔[40]

خلافت عثمانیہ (ترکیہ) کے زمانے میں بھی شیعوں پر کچھ کم مظالم نہیں ڈھائے گئے، سلیم عثمانی بادشاہ کے، کان خبر چینوں نے بھر دیئے کہ آپ کی رعایا میں مذہب شیعیت پھیل رہی ہے اور بعض افراد اس سے منسلک ہو رہے ہیں، سلیم عثمانی نے ان تمام افراد کو قتل کا حکم صادر کردیا جو اس مذہب شیعہ میں شامل ہو رہے تھے۔[41]اس وقت تقریباً چالیس ہزار افراد کا قتل عام کیا گیا۔

شیخ الاسلام نے فتوی دیا کہ ان شیعوں کے قتل پر اجرت ملے گی اور شیعوں کے خلاف جو جنگ کو ہوا دے گا اس کو بھی انعام دیا جائے گا[42]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next