تيسری فصل



 Ø§Ø³ Ù†Û’ کہا حذیفہ Ú©ÛŒ بات آخری ہوگی، خدا Ú©ÛŒ قسم میں دروازہ کھول رہا ہوں تاکہ حالات معمول پر رہیں اس Ú©Û’ بعد جو حالات پیش آئیں Ú¯Û’ وہ ان سے بدتر ہوں Ú¯Û’ اور ہم خدا سے اس کا گلہ کرتے ہیں۔

ابیّ ابن کعب اس راز کو اپنے سینہ میں لئے پھرتا رہا برسوں بعد اس کو فاش کرنا چاہا، اے کاش! اس کو موت ایک دن کی مہلت دیدیتی۔[11]

علی بن صخرہ سے روایت ہے کہ : میں نے ابی ابن کعب سے کہا کہ اصحاب رسول آپ کا کیا حال ہے؟ ہم دور سے آئے ہیں آپ سے خیر کی امید رکھتے ہیںکہ آپ ہمارے ساتھ نرمی برتیں گے۔

انھوں نے کہا کہ خدا کی قسم اگر اس جمعہ تک زندہ رہا تو تم لوگوں کو ایک راز بتاؤں گا جس کے برملا کہنے پر تم لوگ چاہے زندہ رکھو یا مجھے قتل کردو۔

روز جمعہ میں گھر سے نکلا تو کیا دیکھا کہ مدینہ کی گلیوںمیں لوگوں کا سیلاب امڈ آیا ہے میں نے پوچھا کہ، کیا ہوا؟تو لوگوں نے بتایا کہ سید المسلمین ابیّ ابن کعب کا انتقال ہوگیا۔[12]

ابن سعد راوی ہیں کہ خدا قسم میں اخفاء راز میں اس دن جیسا دن نہیں دیکھا جیسا اس شخص نے راز کو چھپایا تھا۔[13]

حاکم کی روایت ہے کہ ابیّ بن کعب نے کہا کہ اگر میں اس جمعہ تک زندہ رہا تو وہ بات بتاؤں گا جو رسول اکرم سے سنا ہے اور اس کو بتانے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں کروں گا۔[14]

مشہور مورخ یعقوبی کہتے ہیں کہ مہاجرین و انصار میں بہت سارے افراد نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا اور علی کی طرف مائل ہوئے من جملہ عباس بن عبد المطلب، فضل بن عباس، زبیر بن العوام، خالد بن سعید، مقداد بن عمرو، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار بن یاسر، براء بن عازب، ابیّ بن کعب۔[15]

شاید اسی Ú©Û’ سبب بعض محققین اور مستشرقین کا خیال خام ہے کہ سقیفہ Ú©Û’ حادثہ Ú©Û’ بعد تشیع وجود میں آئی ہے، مغربی مورخ گولڈ شیارڈ کہتا ہے کہ خلافت Ú©ÛŒ مشکل Ú©Û’ وقت بزرگ اصحاب Ú©Û’ درمیان اس فرقہ (شیعیت) Ù†Û’ وجود پایا، اور اس گروہ Ù†Û’ خلفاء ثلاثہ ابوبکر، عمر، عثمان، Ú©Û’ انتخاب Ú©ÛŒ ملامت کی، جو کہ خاندان رسالت سے کسی قسم Ú©ÛŒ کوئی قربت نہیں رکھتے تھے او راسی سبب اس گروہ Ù†Û’ حضرت علی  Ú©Ùˆ اس خلافت Ú©Û’ لائق جانتے ہوئے ان Ú©Ùˆ صاحب فضیلت جانا اور علی Ú©Ùˆ رسول Ú©Û’ قریب ترین لوگوں میں شمار کیا اور جو چیز اس میں مزید فضیلت کا سبب بنی وہ دختر رسول حضرت فاطمہ کا شوہر ہونا تھااور اس گروہ Ú©Ùˆ سنہری موقع نہ مل سکا جس میں اپنی بات ببانگ دہل کہہ سکیں۔[16]

خالد بن سعید بن العاص کو رسول اکرم نے کسی کام کے لئے بھیجا تھا جب رسول کی وفات ہوگئی اور لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کر لی تو اس وقت واپس آیا جب اس سے بیعت طلب کی گئی تو اس نے انکار کردیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next