تيسری فصل



اگر ہم ان فرقوں کو بغور ملاحظہ کریں تو اس بات کا انکشاف ہوگا کہ وہ شیعیت جس کی بنیاد رسول اکرم نے ڈالی تھی اور آج تک اپنے آب و تاب کے ساتھ پیغام رسالت کی حامل اور اثناعشری عزائم و عقائد کا مرکز ہے ان لوگوں کا شیعہ فرقوں سے کوئی واسطہ نہیں۔

غلو اور غلو کرنے والے!

اس بحث Ú©Ùˆ چھیڑ Ù†Û’ کا مقصد غلو کرنے والے اوراس Ú©Û’ فرقوں Ú©ÛŒ نقاب کشائی ہے اور وہ اختلاط جو متقدمین Ùˆ متاخرین علماء Ù†Û’ اس فرقہ اور شیعیت Ú©Û’ درمیان جان بوجھ کر یا انجانے میں پیش کیا ہے ان Ú©Ùˆ بیان کرنا مقصود ہے، ان علماء Ù†Û’ غلو کرنے والوں Ú©Û’ بہت سارے عقائد Ú©Ùˆ شیعہ اثنا عشری فرقہ Ú©ÛŒ جانب نسبت دی ہے  بعض Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ ”رافضی“ Ú©Û’ لفظ سے یاد کیا ہے بظاہر وقت کلام شیعوں سے کنارہ Ú©Ø´ÛŒ اختیار Ú©ÛŒ ہے اور ان پر لعن طعن کیا ہے،ان لوگوں Ù†Û’ غلو کرنے والے (فرقہٴ غالیہ) Ú©Û’ مختلف عقائد اور دوسرے فرقہ Ú©Û’ عقائد Ú©Ùˆ رافضہ یا روافض Ú©Û’ عقائد Ú©Û’ نام سے یکجا کردیاہے۔

جیسا کہ ابن تیمیہ نے بہتیرے فاسدو باطل عقائد اور عجیب و غریب باتوں کو رافضیوں کے نام ایسا منسوب کیا ہے کہ قاری کے ذہن میں یہ بات ایسے راسخ ہو جائے کہ یہ شیعوں کے عقائد ہیں، لیکن چند صفحات سیاہ کرنے کے بعد کچھ یوں اظہار نظر کرتے ہیں:

”جو بات قابل توجہ ہے وہ یہ کہ شیعوں کی قسموں میں جو لائق مذمت اقوال و افعال جو کہ مذکورہ باتوں سے کہیں زیادہ ہیں یہ سب کے سب نہ ہی شیعہ اثنی عشری فرقہ میں ہیں اور نہ ہی زیدیہ میں، بلکہ ان میں سے زیادہ تر فرقہٴ غالیہ اور ان کے سطحی افراد میں پائی جاتی ہیں۔[61]

مشکل اس بات Ú©ÛŒ ہے کہ یہ سارے منحرف اور غلاة گروہ اہل بیت سے محبت کا دعویٰ کرتے تھے اور ان خرافاتی گروہ کا مرکز شہر کوفہ تھا اور یہ شر پسند افراد اپنے تمام تر عقائد میراث میں پائے تھے اور اپنے شہر ”مانویہ، ثنویہ“ سے کسب کیا تھا جو کہ مجوسیوں Ú©Û’ تراشیدہ Ùˆ خود ساختہ عقائد تھے، نیز حلول، اتحاد، تناسخ (آواگون)ØŒ جیسے عقائد ہندوستان Ú©Û’ فرسودہ عقائد کا چربہ تھا یااس Ú©Û’ مانند دیگر ممالک جو اسی دسترخوان Ú©Û’ نمک خوار تھے، انھیں سب اسباب Ú©Û’ تحت یہ باطل عقائد فطری طور پر منحرف اور سادہ لوح افراد Ú©Û’ درمیان بہت تیز پھیلے، جب انھوں Ù†Û’ عام مسلمانوں بالخصوص شیعیان کوفہ Ú©Ùˆ اہلبیت کرام  Ú©Û’ لطف Ùˆ کرم سے فیضیاب ہوتے ہوئے دیکھا تو اپنے آپ Ú©Ùˆ اہلبیت  سے منسوب کردیا اور خود Ú©Ùˆ ان کا شیعہ ظاہر کیا ،تاکہ لوگوں Ú©Û’ دلی لگاؤ Ú©Ùˆ اپنی طرف متوجہ کرسکیں ،جس Ú©Û’ سبب ان Ú©Û’ عقائد Ú©ÛŒ ترویج میں ان Ú©Ùˆ آسانی ہوئی۔

جبکہ اہلبیت  Ù†Û’ ان خطوط سے لوگوں Ú©Ùˆ ہوشیار اور مسلمانوں Ùˆ شیعوں Ú©Ùˆ غلاة Ú©ÛŒ مکاریوں سے آگاہ بھی کیا جیسا کہ گذر چکا ہے، مزید Ú©Ú†Ú¾ ذکر آئے گا۔

غلو کے سلسلہ میں جو اصل مشکل ہوئی وہ یہ کہ اس کے مفہوم کی حد بندی نہیں ہوئی اور واضح نہ ہوسکا جس کا فطری اثر خلط عقائد ہوا، لہٰذا ان امور کی وضاحت ضروری ہے۔

غلو کے لغوی معنیٰ: قصد و ارادہ کے ساتھ نکلنا اور حد سے بڑھ جانا ہے، لہٰذا ہر وہ چیز جو حد سے باہر نکل جائے وہ غلو ہے۔

      ابن منظور Ú©Û’ بقول: اس Ù†Û’ دین Ùˆ امر میں غلو کیا یعنی، حد سے باہر Ù†Ú©Ù„ گیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next