تيسری فصل



من گڑھت حدیثوں کی بھرمار اورالزامات کی بارش ہوگئی اوراس (جرم) میں فقیہوں، قاضیوں اور امیروں کے ہاتھ رنگین تھے۔

سب سے بڑی مصیبت تو یہ تھی کہ جو قاریان قرآن اور رواویان حدیث تھے اور وہ لوگ جو تقویٰ و زہد کا اظہار کرتے تھے، انھوں نے بھی حدیث کی تخلیق میں خاطر خواہ حصہ لیا تاکہ امیر شہر کی نگاہوں میں باوقار اور ان کی نشستوں میں مقرب، مال دو دولت کے حصہ دار اور مکانوں کے مالک بن جائیں، حد یہ کہ یہ خودساختہ حدیثیں جب ان متدین افراد کے ہاتھوں پہنچیں جو جھوٹ اور بہتان کو حرام گردانتے تھے تو انھوں نے بے چوں و چرا ان کو قبول کرلیں اوران کو حق اور سچ سمجھتے ہوئے دوسروں سے نقل بھی کیں، اگر وہ یہ جانتے کہ یہ باطل ہیں تو نہ ہی اس کو نقل کرتے اور نہ ہی اس کی حفاظت کرتے۔

یہ سلسلہ حضرت حسن مجتبیٰ کی شہادت تک چلتا رہا، ان کے بعد تو فتنہ و بلا میں اضافہ ہوتا گیا اور علی کے حامیوں میں سے کوئی ایسا نہیں تھا جواپنے جان و مال اور شہر بدر ہونے سے خائف نہ ہو۔

امام حسین  Ú©ÛŒ شہادت Ú©Û’ بعد حالات Ù†Û’ دوسرا رخ اختیار کرلیا اورعبد الملک بن مروان امیر بنا اس Ù†Û’ شیعوں پر سختی شروع کردی اور حجاج بن یوسف ثقفی Ú©Ùˆ ان پر مسلط کردیا، بس کیا تھا زہد Ú©Û’ ڈھونگی، اصلاح ودین Ú©Û’ بہروپیئے، علی Ú©Û’ بغض اور دشمنان علی Ú©ÛŒ محبت، اور عوام میں جو بھی یہ دعوی کرتا کہ ہم بھی علی Ú©Û’ دشمن ہیں ان سے دوستی Ú©Û’ سبب مقرب بارگاہ ہوگئے، اور شہ Ú©ÛŒ مصاحبی پر اترانے Ù„Ú¯Û’ØŒ اس Ú©Û’ بعد خاندان بنی امیہ Ú©Û’ گرگوں Ú©ÛŒ ثنا خوانی، فضائل بیانی اور یاد ماضی Ú©ÛŒ روایتوں میں اضافہ شروع ہوگیا، دوسری طرف حضرت علی Ú©ÛŒ ہجو، عیب تراشی اور طعن Ùˆ تشنیع کا دروازہ کھلا رہا۔

ایک شخص حجاج بن یوسف کے سامنے آکے کھڑا ہوا، کہا جاتا ہے کہ اصمعی عبد الملک بن قریب کا دادا تھا، وہ چیخا، اے امیر! میرے گھر والوں نے مجھے چھوڑ دیا ہے او رمجھے علی کہہ کر پکارتے ہیں میں مجبور و لاچار شخص ہوں، میں امیر کی عنایتوں کا محتاج ہوں، حجاج اس پر بہت ہنسا اور بولا کہ: تمہارے اس توسل حاصل کرنے کے لطف میں تم کو فلاں جگہ کا حاکم بناتا ہوں۔

ابن عرفہ جو کہ نقطویہ کے نام سے مشہور ہیں اور بزرگ محدثین میں ان کا شمار ہوتا ہے اس خبر سے متعلق تاریخ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ: اصحاب کی شان میں گڑھی جانے والی اکثر حدیثیں بنی امیہ کے دور حکومت کی ہیں ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے تخلیق کی گئیں ہیں کیونکہ فرزندان امیہ یہ سونچ رہے تھے کہ اس کے سبب بنی ہاشم کو ذلیل کردیں گے۔[30]

جیسا کہ ابن ابی الحدید Ù†Û’ دوسری روایت حضرت امام باقر  سے روایت Ú©ÛŒ ہے: جواسی معنی Ú©ÛŒ عکاسی کرتی ہے، آپ Ù†Û’ اپنے Ú©Ú†Ú¾ اصحاب Ú©Ùˆ مخاطب کر Ú©Û’ فرمایا: اے فلاں! قریش Ù†Û’ ہم پر کیا کیا مصیبتیں نہیں ڈھائیں اور ہمارے شیعوں Ù†Û’ کیسے کیسے ظلم نہیں برداشت کئے۔

لوگوں سے رسول اللہ نے قبض روح کے وقت فرمایا تھا: ”ہم (اہل بیت) لوگوں میں سب سے برتر ہیں“ قریش نے ہم سے روگردانی کرلی یہاں تک کہ خلافت اپنے محور سے ہٹ گئی اور انصار کے مقابل ہمارے حق و حجت پر احتجاج کیا، اس کے بعد قریش ایک کے بعد دوسرے کی طرف اس کو لڑھ کاتے رہے یہاں تک کہ ایک بار پھر ہم تک واپس آئی پھر ہماری بیعت توڑ دی گئی، ہمارے خلاف علم جنگ بلند کردیا گیا اور اس خلافت کا مالک و پیشوا مشکلات و پریشانیوں میں گھٹتا رہا یہاں تک کہ شہادت اس کا مقدر بن گئی، پھر ان کے فرزند حسن کی بیعت کی گئی اور عہد و پیمان کئے گئے لیکن ان کے ساتھ عہد شکنی کی اور ان کو تسلیم کرادیا گیا۔

اہل عراق نے ان کے خلاف بغاوت کی اور خنجر کا وار کیا، ان کا لشکر تتر بتر ہوگیا، ان کی اولاد کی ماؤوں کے زیورات چھین لئے گئے۔

جب معاویہ سے صلح کی تو حسن اور ان کے فرزندوں کا خون محفوظ ہوا، ان کی تعداد بہت ہی کم تھی اس کے بعد اہل عراق نے حسین کی بیس ہزار کی تعداد میں بیعت کی، لیکن اپنی بیعتوں سے منحرف ہوگئے اوران کے خلاف نکل پڑے جب کہ ان کی گردنوں میں حسین کی بیعت کا قلادہ پڑا تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next