تيسری فصل



جب منصور کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو اس نے ایک گروہ کو طلب کیا تو انھوں نے اس بات کا اقرار کیا، اس نے اس بات سے توبہ اور روگردانی کا حکم دیا تو انھوں نے کہا کہ منصور ہمارا خدا ہے وہی ہم کو شہید کرتا ہے، جس طرح سے انبیاء و مرسلین جن کے ہاتھوں وہ چاہتا ہے، شہید کئے گئے، اور ان میں سے بعض کے عمارت ڈھاکر یا غرق کر کے ہلاک کیا، بعض کے اوپر درندے چھوڑ دیئے، بعض کی روحوں کو حادثاتی یا دل بخواہ علتوں سے قبض کرلیا، وہ اپنی مخلوقات کے ساتھ جیسا چاہے برتاؤ کر اسی کو اختیار ہے اس سے کسی بات کا سوال نہیں ہوگا۔[63]

اسلام سے قبل ادیان و مذاہب میں بھی غلو پایا جاتا تھا۔

یہودیوں Ù†Û’ حضرت عزیر  Ú©ÛŒ الوہیت کا دعویٰ کیا، جس Ú©Ùˆ روایات Ù†Û’ بھی بیان کیا ہے اور قرآن Ù†Û’ بھی اس Ú©ÛŒ عکاسی Ú©ÛŒ ہے۔

<اٴو کَالَّذِی مَرَّ عَلٰی قَرْیَةٍ وَ ہِیَ خَاوِیَةٌ علٰی عُرُوشِہَا قَالَ اٴنیٰ یُحیِی ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعدَ مَوتِہَا فَاٴَمَاتَہُ اللّٰہُ مِاٴئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہُ>[64]

(یا اس بندے کے مثال جس کا گذر ایک بستی ہوا جس کے عرش و فرش گر چکے تھے تو اس بندے نے کہا کہ خدا ان سب کو موت کے بعد کیسے زندہ کرے گا تو خدا نے اس بندہ کو سو (۱۰۰) سال کے لئے موت دیدی اور پھر زندہ کیا)۔

قرآن کریم نے ان کے خرافاتی نظریہ کو کچھ یوں نقل کیا ہے:

<وَ قَالَتِ الیَہُودُ عَزِیزٌ ابنِ اللّٰہِ>[65]

(یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں)۔

روایات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ حضرت عزیر کے توسط سے کچھ ایسے معجزات رونما ہوئے جس کے سبب یہودی یہ کہنے لگے کہ ان میں الوہیت پائی جاتی ہے یا اس کا کچھ جزء شامل ہے، یہودیوں کے مثل نصاری کے یہاں بھی ایسے نظریات پائے جاتے ہیں، انھوں نے حضرت عیسیٰ کے سلسلہ میں غلو کیا اوران کی الوہیت کا دعویٰ کیا، قرآن کریم نے گذشتہ آیت میں یہودیوں کے نظریات کے فوراً بعد ان کے نظریات کا تذکرہ کیا ہے:

<ÙˆÙŽ قَالَتِ الیَہُودُ عَزَیرٌ ابنُ اللّٰہِ وَقَالَتِ النَّصاریٰ المَسِیحُ ابنُ اللّٰہُ ذٰلِکَ قَولُہُم   یُضَاہِئُونَ قَولَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِن قَبلِ قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ اٴنّٰی یُؤفَکُونَ>[66]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next