تيسری فصل



امام رضا  Ù†Û’ اپنے اس آنے والے قول میں اس بات Ú©ÛŒ اور وضاحت کردی ہے

آپ نے فرمایا: جن لوگوں نے تشبیہ اور جبر کی باتوں کو گڑھ کر ہم شیعوں کی جانب منسوب کردیا ہے وہ غلاة ہیں جنھوں نے عظمت پروردگار کو گھٹایا ہے، جو ان لوگوں سے محبت کرے گا وہ ہمارا دشمن ہے جو ان سے نفرت کرے گا وہ ہمارا محبوب ہے، جو ان سے لگاوٴ رکھے گا وہ ہمارا دشمن ہے، جو ان کو دشمن ہے وہ ہمارا چاہنے والا ہے، جو ان سے صلہٴ رحم کرے وہ ہم سے جدا ہوگا، جو ان سے جدا ہوگیا وہ ہم سے مل گیا، جس نے ان سے جفا کی اس نے ہمارے ساتھ حسن رفتار کیا، جس نے ان کے ساتھ حسن رفتار کیا گویا اس نے ہم پر جفا کی، جس نے ان کا اکرام کیا اس نے میری توہین کی، جس نے ان کی توہین کی اس نے میری عزت کی، جس نے ان کو قبول کیا اس نے ہماری تردید کی اور جس نے ان کی تردید کی اس نے ہم کو قبول کیا، جس نے ان کے ساتھ حسن رفتار کیا اس نے ہمارے ساتھ سوء ادب سے کام لیا، جس نے ان سے بدخلقی سے برتاوٴ کیا اس نے ہمارے ساتھ خوش خلقی کی، جس نے ان کی تصدیق کی اس نے ہم کو جھٹلایا اور جس نے ان کو جھٹلایااس نے ہماری تصدیق کی، جس نے ان کو عطا کیا گویا ہم کو محروم کردیا، اور جس نے ہم کو عطا کیا گویا ان کو محروم کیا، اے ابن خالد، جو بھی ہمارا شیعہ ہوگا کبھی بھی ان کو اپنا ولی و مددگار قرار نہیں دے گا۔[111]

غلاة اور امام علی بن محمد ہادی  کا موقف

امام ہادی  بھی غلاة Ú©Û’ اس گروہ سے دوچار ہوئے جو ائمہ Ú©ÛŒ ربوبیت Ùˆ الوہیت Ú©Û’ قائل تھے، اور ان Ú©Û’ زمانے Ú©Û’ غلاة کا سردار محمد بن نصیر غیری تھا، اور نصیری فرقہ اسی جانب منسوب ہے، اور ایک قلیل گروہ Ù†Û’ اس فرقہ Ú©ÛŒ پیروی Ú©ÛŒ ہے، جن میں نمایاں فارس بن حاتم قزوینی اور ابن بابا قمی ہے۔

کشی نے لکھا ہے کہ: ایک فرقہ محمد بن نصیر غیری کی رسالت کا قائل ہے اور وہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی و رسول ہے اور اس کو علی بن محمد ہادی نے رسالت بخشی ہے، حضرت امیر کے بارے میں تناسخ کا قائل تھا اور غلو کرتا تھا اور اس بات کا دعویٰ کرتا تھا کہ ان میں ربوبیت پائی جاتی ہے۔

وہ کہتا تھا کہ: تمام محارم مباح ہیں، مرد کا مرد کے ساتھ نکاح ہوسکتا ہے وہ اس نظریہ کا موجد و قائل تھا کہ فاعل و مفعول دونوں لذات میں سے ایک ہیں اور خدا نے ان میں سے کسی ایک کو حرام نہیں قرار دیا۔

محمد بن موسیٰ بن حسن بن فرات اس کے نظریہ کی حمایت کرتا ہے، وہ کہتا ہے کہ بعض لوگوں نے محمدبن نصیر کو علی الاعلان اغلام بازی کی کیفیت میں دیکھا ہے اور اگر اس کے غلام نے اس فعل سے انکار کیا تو اس نے یہ نظریہ قائم کیا کہ یہ لذتوں سے ایک ہے! یہ درحقیقت خدا کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے اور جبر و رکاوٹ کو ختم کرنا ہے۔

نصر بن صباح کہتے ہیں کہ: حسن بن محمد معروف بہ ابن بابا، محمد بن نصیر غیری، فارس بن حاتم قزوینی، ان تینوں پر امام علی نقی  Ù†Û’ لعنت بھیجی ہے۔

ابو محمد فضل بن شاذان نے اپنی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ ابن باباء قمی مشہور جھوٹوں میں سے تھا۔

سعد کہتے ہیں کہ مجھ سے عبیدی Ù†Û’ بتایا کہ ابتدائے دور میں امام علی نقی  Ù†Û’ میرے پاس ایک خط لکھا کہ ”میں فہری، حسن محمد بن بابا قمی، ان دونوں سے اظہار برائت کرتا ہوں لہٰذا تم بھی ان دونوں سے بیزار ہو جاوٴ، میں تم Ú©Ùˆ اور اپنے چاہنے والوں Ú©Ùˆ ان دونوں سے خبردار کرتا ہوں، ان دونوں پر اللہ Ú©ÛŒ لعنت ہو یہ ہمارے نام پر لوگوں سے کھا رہے ہیں، یہ دونوں اذیت دینے والے اور فتنہ پرور ہیں خدا ان دونوں کواذیت دے، خدا ان دونوں Ú©Ùˆ فتنہ Ú©ÛŒ رسّی میں جکڑ دے، ابن بابا (قمی) یہ خیال کرتا ہے کہ میں Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ نبوت دی ہے اور وہ رئیس ہے اس پر خدا Ú©ÛŒ لعنت ہو، شیطان Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ مسخر کر Ú©Û’ اس کا اغوا کرلیا ہے، اس پر بھی خدا Ú©ÛŒ لعنت ہو جو ان Ú©ÛŒ باتوں Ú©Ùˆ قبول کرے۔

اے محمد! اگر تم اس بات پر قدرت رکھتے ہو کہ پتھر سے اس کا سر کچل دو تو ایسا کر گذرو کیونکہ اس نے مجھ کو اذیت دی ہے، خدا اس کو دنیا و آخرت میں اذیت دے“[112]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next