تيسری فصل



ابن عدی نے کہا کہ: اس کی بعض حدیثیں مشہور ہیں اور عام طور وہ ناقابل قبول ہیں اور ان کی کوئی پیروی نہیں کرتا۔

ابن جبان نے کہا کہ: یہ بات ثابت ہے کہ وہ جعلی حدیثیں بیان کرتا تھا اور کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ وہ حدیث گڑھتا تھا۔

ابن حجر نے ابن جبان کے بقیہ کلام کو یوں نقل کیا ہے کہ: ”اس پر ملحد ہونے کا الزام لگایا گیا“

برقانی نے دار قطنی کے حوالہ سے کہا ہے: کہ وہ متروک ہے۔

حاکم نے کہا کہ: اس پر ملحد ہونے کا الزام تھا، راوی کے اعتبار سے وہ ساقط الاعتبار ہے، تہذیب التہذیب، ج۴، ص۱۶۰۔ ۲۵۹

اس کا مقابلہ کرنے کی قوت نہیں تھی لہٰذا انھوں نے دوسرا حیلہ حربہ اور مکر کا استعمال کیا اور وہ تھا اسلام میں نفاق کا نفوذ و دخول، اور اندر سے اسلام کی بیخ کنی اور فتنہ کے ذریعہ اسلامی وحدت میں پھوٹ ڈالنا۔

جس نے اس بات کی فکر و تدبیر اپنائی پھر اس کو لوگوں کے سامنے پیش کیا وہ عبد اللہ بن سبا اور کے پیروکار تھے۔[121]

ان دو اہم صورتوں کی جانب توجہ ضروری ہے جو عبد اللہ بن سبا کی شخصیت کو واضح کرتی ہیں:

۱۔ دائرہٴ اسلام میں برپا ہونے والے فتنوں کو اس کی جانب نسبت دینا۔

۲۔ خلیفہٴ سوم عثمان بن عفان کے دور حکومت میں پیدا ہونے والی مشکلات کو اس کے سر مڈھنا جس کی اصل و اساس طبری کی روایت ہے جو ابھی ابھی ذکر ہوئی ہے اور ابن سبا کو خیالی کردار عطا کرتی ہے اور نیک صحابہ کی ایک بڑی تعداد کو اسلام کا لبادہ اوڑھے اس یہودی کا تابع قرار دیتی ہے جبکہ دوسرا رخ یہ فرض کرتا ہے کہ عبد اللہ بن سبا، خیالی شخص ہے کیونکہ طبری کی اس سے نقل کردہ یہ روایت ضعیف ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next