تيسری فصل



بعض تاریخوں Ù†Û’ اس Ú©Û’ وجود کا اعتراف کیا ہے لیکن اس شخصیت Ú©ÛŒ طرف نسبت دیئے جانے والے عظیم کردار کا انکار کیا ہے، کیونکہ منابع میں موجود روایات اس بات Ú©ÛŒ تاکید کرتی ہیں کہ اس شخص کا وجود حضرت امیر Ú©Û’ دور خلافت میں ہوا اوراس Ù†Û’ آپ  Ú©ÛŒ شان میں اس حد تک غلو کیا کہ آپ Ú©Ùˆ خدا جانا، اور اس انحرافی عقیدہ میں اس Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ پیروکار بھی مل گئے لیکن اس Ú©ÛŒ یہ تحریک اس درجہ اہمیت Ú©ÛŒ حامل نہ تھی جس طرح بعض مورخین Ùˆ محققین Ù†Û’ ذاتی مقاصد Ú©Û’ حصول Ú©Û’ لئے پیش کیا۔

اگر عبد اللہ بن سبا اتنی اہمیت کا حامل ہوتا تواہل سنت کی احادیث کی کتابیں خاص طور سے صحاح اس بات کی جانب ضرور اشارہ کرتیں جبکہ یہ کتابیں اس کے تذکرے سے خالی ہیں۔

      (Û±)بعض مستشرقین Ùˆ سیرت نگاروں Ù†Û’ اس بات Ú©Ùˆ بھانپ لیا کہ ابن سبا Ú©Û’ کردار Ú©Ùˆ بڑھا چڑھا کر پیش کرنے Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ سیاسی مقاصد تھے تاکہ شیعوں سے بدلہ لیا جاسکے۔

فلہوزن کہتا ہے کہ: سبئیہ کا لقب صرف شیعوں کے لئے بولا جاتا تھا، لیکن اس کا دقیق استعمال صرف شیعہ غلاة کے لئے صحیح ہے، جبکہ ذم (مذمت) کا لفظ شیعہ کے تمام گروہ پر برابر سے صادق آتا ہے۔[122]

ڈاکٹر محمد عمارہ کہتے ہیں: کہ جو ہمارے موضوع، یعنی تشیع کی نشو و نما کی تاریخ سے مربوط ہے (اس سلسلہ سے عرض ہے) کہ عبد اللہ بن سبا کا وجود (اگر اس نام کا شخص تھا) تو اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ شیعیت اس کے دور میں وجود میں آئی [123]اور شیعوں نے اس سے اس طرح کی کوئی چیز نقل نہیں کی ہے، لہٰذا یہ بات کہنا بالکل درست نہیں کہ شیعوں کے معروف فرقہ کی نشو و نما اس کے زمانے میں ہوئی۔[124]

مشکل یہ ہے کہ ابن سبا کا قضیہ جمہوری عقائد میں ٹکڑوں میں بٹ گیا اور جس کے وجود کے سبب سیاست متاثر ہوئی۔

حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ سعودی رسالوں کے صفحات پر بڑی گھمسان نظریاتی جنگ ہوئی ہے، جیسے صحیفہٴ ریاض وغیرہ اساتذہ اور سیرت نگاروں کے بارے میں خیالی ابن سبا کے موضوع پر بڑی رد و قدح ہوئی ہے، ایک طرف اس بیچ ہونے والی بحثوں کا مقصد غیر منصف سیرت نگاروں کا شیعی عقائد کو اس کی طرف منسوب کرنا تھا تو دوسری جانب بعض انصاف پسند سیرت نگاروں نے ابن سبا کے مسئلہ کو جمہوری عقائد کا جزء تسلیم کیا ہے۔

ڈاکٹر حسن بن فہد ہویمل کہتے ہیں: کہ ابن سبا کے سلسلہ میں تین نظریات ہیں:

سطح اول:

اسلام کے سادہ لوح مورخین کے نزدیک اس کا وجود ہے اور اس کا زمانہ فتنہ و فساد کا عروج تھا۔

مستشرقین اور متاخر شیعہ اس کے وجود کے منکر ہیں اور اس کے کردار کے منکر ہیں، میں نے جو متاٴخر شیعہ کہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس مطلب کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ متقدم شیعوں نے ابن سبا کے وجود کا انکار نہیں کیا، ہر چند کہ اس کے بعض کردار کے مخالف ہیں۔

سطح دوم:

وہ ہے کہ عبد اللہ بن سبا کے وجود کا اثبات اور فتنہ انگیزی میں اس کے کردار کو کم گرداننا، اس بابت میں بھی اس کی طرف رجحان رکھتا ہوں۔

ڈاکٹر ہلابی اور ان کے بعد حسن مالکی اس شخصیت کے سختی سے منکرین افراد میں شمار ہوتے ہیں اور ان دونوں کی تحریروں پر جہاں تک میری نظر ہے اور اس کی من گڑھت شخصیت کے بارے میں میرا نظریہ جو قائم ہوا ہے وہ ان دونوں کے خلاف ہے اور میں اس کی تائید نہیں کرتا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next