تيسری فصل



کیونکہ اس کے شخصیت کی بیخ کنی درحقیقت بہت ساری چیزوں کی بنیادوں کو ختم کرنا اور مٹانا ہے جو بزرگ علماء کے آثار میں موجود ہے، جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن حجر، ذہبی اور ان دونوں کے علاوہ دیگر علماء اسلام۔

اس لئے کہ عبد اللہ ابن سبا، یا ابن سوداء نے ایک عقیدتی مذہب کی بنیاد رکھی ہے اور اگر قبول کیا جائے تو دیگر مواقف بھی معرض وجود میں آتے ہیں لیکن ہم ایسے زلزلہ سے دوچار ہیں جو بہت ساری عمارتوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔[125]

یہاں سے عبد اللہ بن سبا کا وجود اور اس کا افسانوی کردار بعض کے نزدیک عقائدی وجود کا حامل ہے۔

ابن سبا کے وجود کی بناء پر اس عظیم میراث کی قداست محفوظ ہو جاتی ہے چاہے ابن سبا کا وجود رہا ہو یا نہ۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ابن سبا کا مسئلہ در اصل شیعہ مخالف افراد کے پاس ایک ہتھکنڈہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جس کے ذریعہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اپنے عقائد اس ابن سبا کی طرف منسوب کردیں۔

اہل فارس کا شبہ

یہ بات واضح و روشن ہے کہ بنی امیہ کی حکومت خالص عربی تھی جس کی سیاست یہ تھی کہ نو مسلم افراد کو دور سرحدوں کی جانب شہر بدر کردیں اور عربوں کو ان نو مسلموں پر ہر چیز میں برتری دیں، اپنے دشمنوں پر عجم ہونے کا الزام لگاتی تھی وہ بھی نفسیاتی جنگ کا ایک ایسا حربہ تھا جس کو اس حکومت نے اختیار کر رکھا تھا اور یہ ایک صدی تک استعمال کیا جاتا رہا جس کی وجہ سے عام لوگوں کے ذہنوں میں نومسلموں عجم اور فاقد استعداد ہونے کی فکر راسخ ہوگئی۔

شیعہ موجودہ حکومت کے اہم حزب مخالف تھے اوران کے عقائد کے پھیلنے کے سبب اموی حکومت خطرہ میں پڑ رہی تھی، کیونکہ اس حکومت کے ذرائع ابلاغ نے ابن سبا کے ذریعہ شیعوں کی جانب یہودی عقائد منسوب کرنے کے الزام پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ انھوں نے یہ بات پھیلانے کی کوشش کی کہ درحقیقت شیعی عقائد ملک فارس کو فتح کرنے کے بعد ان کے عقائد شیعوں میں سرایت کر گئے ہیں۔

بعض معاصر مباحثین نے اس بات پر بہت زور آزمائی کی ہے بلکہ بسا اوقات حد سے بڑھ گئے اور یہودی و ایرانی عقائد کے درمیان جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔

احمد عطیة اللہ کہتے ہیں: سبیئہ کی تعلیمات شیعی عقائد سے منسوب ہوتے ہیں جن کی اصل یہودیت ہے اور یہ فارس سے متاثر ہیں اس فرقہ کا سرغنہ یمنی الاصل یہودی ہے، جبکہ ایرانیوں نے جزیرة العرب کے کچھ حصہ پر قبضہ کر رکھا تھا اس وقت کچھ ایرانی عقائد ان کے درمیان رائج ہوئے اس وجہ سے سبیئہ فرقہ کو ایران کے ہمسایہ عراق میں کچھ بہی خواہ مل گئے۔

دوسری جگہ کہتا ہے: (الحق الالٰہی) یہ نظریہ ایران سے سبیئہ Ú©ÛŒ جانب بطور خاص اور شیعہ میں بطور عموم سرایت کر گیا، وہ یہ ہے کہ نبی Ú©Û’ بعد حضرت علی  ان Ú©Û’ وصی Ùˆ خلیفہ ہیں اور حضرت علی  Ù†Û’ امامت Ú©Û’ مسئلہ میں خدا Ú©ÛŒ مدد طلب Ú©ÛŒ اور یہ حق علی  سے منتقل ہوکر اہل بیت  تک بطور میراث پہنچا ہے۔[126]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next