تيسری فصل



یہ حکومتیں اس بات سے خائف تھیں کہ اہل بیت  Ú©ÛŒ تعلیم مسلمانوں Ú©Û’ درمیان رشد نہ کریں جو کہ اکثر ان انحرافی تعلیمات Ú©ÛŒ بھینٹ Ú†Ú‘Ú¾ گئیں جن Ú©Ùˆ ظالم حکومت Ù†Û’ رائج کیا تھا اور وہ جعلی حدیثیں جن Ú©Ùˆ رسول اکرم Ú©ÛŒ جانب منسوب کیا تھا ان ظالم حکومتوں Ú©ÛŒ کوشش ا س بات Ú©Û’ اظہار پر تھی کہ یہ اسلامی تعلیمات ہیں جن Ú©Ùˆ اسلامی حکومت Ù†Û’ مرتب کیا ہے، لہٰذا یہ اس بات کا لازمہ بنا کہ وہ شیعوں Ú©Û’ مد مقابل Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہوں اور شیعوں Ú©Ùˆ مسلمانون Ú©Û’ درمیان ان Ú©ÛŒ انقلابی فکروں Ú©ÛŒ تعلیم سے روکیں۔

لہٰذا اس حکومت کے پاس اس فرقہ کے لئے اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اپنے وسائل کو استعمال کرے جو ان کی باتوں کو روک سکے اور لوگوں کو اس بات سے نفرت دلائے کہ ان کے باطل عقائد اسلام حقیقی تک نہیں پہنچ سکتے یا اس کو اسلامی اور عربی معاشرہ میں ایک اجنبی فرقہ کے نام سے مشہور کرے ہم ان کے مختلف نظریات کو پیش کریں گے جو کہ اصل تشیع کے سلسلہ میں ہے ان کا اصل مقصد صرف اتنا تھا کہ حقائق کو مخدوش کردیں اور حقیقی چہرہ پر پردہ ڈال دیں تاکہ لوگ اس تک پہنچ نہ سکیں۔

اصول کا یہودی شبہ

شیعیت پر خطرناک تہمتوںمیں سے ایک یہ ہے کہ ان Ú©ÛŒ اصل Ùˆ اساس یہودیت سے منشعب ہوتی ہے اور اس Ú©ÛŒ جڑ عبد اللہ بن سبا، یہودی Ú©ÛŒ ہے، جس Ù†Û’ آخری دنوں میں اسلام کا تظاہر (دکھاوا) کیا تھا اور اس کا نظریہ اس Ú©Û’ شہر سے Ù†Ú©Ù„ کر حجاز، شام، عراق، مصر، تک پہنچا اور اس Ú©Û’ باطل عقائد مسلمانوں Ú©Û’ درمیان سرایت کر گئے جس کا ایک عقیدہ یہ تھا کہ علی  نبی Ú©Û’ وصی تھے۔

فریدی وجدی کہتا ہے کہ: ابن سوداء (عبد اللہ بن سبا) درحقیقت یہودی تھا اس Ù†Û’ اسلام کا تظاہر کیا اور اس بات کا خواہاں تھا کہ اہل کوفہ کا محبوب Ùˆ سردار رہے، لہٰذا اس Ù†Û’ ان لوگوں Ú©Û’ درمیان یہ بات کہی کہ اس Ù†Û’ توریت میں دیکھا ہے کہ ہر نبی کا ایک وصی رہا ہے اور محمد  Ú©Û’ وصی علی ہیں۔[117]     

یہ روایت درحقیقت طبری کی ہے[118] اور سیف بن عمر کے ذریعہ نقل ہوئی ہے، جس کی عدالت محدثین کی نظر میں شدت کے ساتھ ناقابل قبول ہے۔[119]

طبری کے بعد آنے والے مورخین نے اس کو نقل کیا اور یہ روایت شہرت پاگئی اور جدید و قدیم فرقوں کے مولفین نے اس پر اندھادندھ بھروسہ کیا اور دقت و تفحص سے بالکل کام نہیں لیا۔

ابن حجر نے اس روایت کے بارے میں کہا ہے کہ: اس کی سند صحیح نہیں ہے۔[120]

مولفین حضرات نے اس جانب بالکل توجہ نہیں کی اور صدیوں کے ساتھ اس کے سایہ تلے چلتے رہے۔

ابن تیمیہ کہتے ہیں: جب دشمنان اسلام اس دنیا کی قوت، نفاذ حکومت اور سرعت رفتار سے مبہوت ہوگئے تو حیران و سرگردان صورت میں کھڑے ہوگئے اس وقت ان کے پاس تلوار کے ذریعہ ابوحاتم نے اس کو متروک الحدیث کہا ہے اور اس کی حدیثوں کو واقدی کی حدیثوں سے تشبیہ دی ہے۔

ابوداوٴد نے کہا کہ: یہ حقیقت نہیں رکھتی، نسائی اور دار قطنی نے اس کو ضعیف کہا ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next