تيسری فصل



اس محقق Ù†Û’ اس بات Ú©ÛŒ کوشش Ú©ÛŒ ہے کہ اہل بیت  Ú©ÛŒ میراثی امامت اور فارس Ú©ÛŒ وہ افکار جو لوگوں میں سرایت کر گئیں ہیں ان Ú©Û’ بیچ ایک ربط دے، اس لئے کہ یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ایرانی میراثی حکومت Ú©Û’ قائل تھے اور اسی نظریہ Ú©ÛŒ تائید بے شمار محققین اور بعض شرق شناسوں Ù†Û’ Ú©ÛŒ ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اگر اس نظریہ پر غور و فکر کیا جائے تو ہم یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ اس نظریہ پر اموی حکمرانوں نے عمل کیا ہے، اس لئے کہ انھوں نے اس بات کی کوشش کی کہ یہ خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو جائے جس کو اولاد باپ داداوٴں سے میراث میں پائے اوراموی حکومت تو خالص عربی حکومت تھی جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں۔

لہٰذا ان کا فارس کی تقلید کرنا بالکل ناممکن تھا اس بنا پر اس نظریہ کو شیعوں کی جانب زبردستی منسوب کرنا اور بھی نامعقول ہے، بلکہ محال ہے کیونکہ تشیع خالص عربی ہے جس کو ہم عنقریب ثابت کریں گے بعض محققین نے اس نظریہ کو تقویت دینے کی کوشش کی ہے کہ شروع کے اکثر شیعہ ایرانی تھے۔

   شیخ محمد ابو زہرة کہتے ہیں: حق یہ ہے کہ جس کا ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ شیعہ ملوکیت اور اس Ú©ÛŒ وراثت Ú©Û’ سلسلہ میں ایرانیوں سے متاثر ہیں ان Ú©Û’ مذہب ایرانی ملوکیتی نظام Ú©Û’ درمیان مشابہت بالکل واضح ہے اور اس بات پر گواہ یہ ہے کہ اس وقت اکثر ایرانی شیعہ ہیں اور شروع Ú©Û’ سارے شیعہ ایران Ú©Û’ رہنے والے تھے۔[127]

یہ بات کہ اس وقت اکثر اہل ایران شیعہ ہیں تو یہ صحیح ہے لیکن ابوزہرہ شاید یہ بات بھول گئے کہ بیشتر ایرانی آخری دور خاص طور سے صفوی حکومت کے دروان دائرہٴ تشیع میں داخل ہوئے ہیں۔

اور یہ بات کہ شروعات کے سارے شیعہ ایرانی تھے تو یہ بالکل غلط ہے اس لئے کہ یہ بات تاریخ کے مطالعہ سے بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اس وقت کے بیشتر شیعہ خالص عرب تھے اور اس بات کو متقدمین مولفین نے قبول و ثابت کیا ہے، یہ اور بات ہے کہ ایران کے بعض علاقہ شیعہ نشین تھے اوران کی سکونت کی شروعات شہر قم سے ہوئی، جبکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ سارے شیعہ (جو کہ قم میں سکونت پذیر تھے) سب عرب تھے ان میں سے کوئی ایرانی نہیں تھا۔

یاقوت حموی شہر (قم) کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اسلامی نوآبادیاتی شہر ہے اس میں پہلے سے عجم کا نام و نشان تک نہیں تھا، جس نے سب سے پھلے اس علاقہ کا رخ کیا وہ طلحہ بن احوص اشعری تھا اس کے اہل خاندان سب شیعہ تھے،حجاج بن یوسف کے زمانے ۸۳ھء میں اس کو بسایا تھا

جب ابن اشعث نے شکست کھائی اور شکست خوردہ حالت میں کابل کی طرف پلٹا تو یہ ان بھائیوں کے ہمراہ تھا جن کو عبد اللہ، احوص، عبد الرحمن، اسحاق، نعیم کہا جاتا تھا یہ سب سعد بن مالک بن عامر اشعری کی اولاد تھے ان بھائیوں میں نمایاں عبد اللہ بن سعد تھا اس کا ایک بیٹا تھا جو کہ کوفہ میں تھا اور قدری عقائد کا مالک تھا وہاں سے قم کی جانب ہجرت کر گیا یہ شیعہ تھا، اسی نے تشیع کو اہل قم تک

   پہنچایا لہٰذا قم میں کبھی کوئی بھی سنی موجود نہیں رہا ہے۔[128]

جیسا کہ حموی نے ثابت کیا کہ شہر”ری“ میں شیعیت نہیں تھی یہ معتمد عباسی کے زمانے میں آئی ہے، وہ کہتا ہے کہ:اہل ری سب اہل سنت والجماعت تھے یہاں تک کہ احمد بن حسن مادراتی نے ری کو فتح کیا اور وہاں تشیع کو پھیلایا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next