تيسری فصل



طوسی ۺ نے سلیمانیہ فرقہ کو زیدیہ شیعی فرقہ سے جدا کیا ہے کیونکہ وہ لوگ نص کے قائل نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ امامت شوریٰ (کمیٹی کے انتخاب) کے ذریعہ طے ہوسکتی ہے اور اگر دو نیک کسی پر ایک ساتھ اتفاق رائے کرلیں تو بھی امامت ممکن ہے، مفضول کو بھی (فاضل کے ہوتے ہوئے) امامت مل سکتی ہے۔

صالحہ، بتریہ، زیدیہ فرقہ کا بھی امامت کے سلسلہ میں سلیمانیہ ہی کی مانند نظریہ ہے شیخ طوسیۺ نے سلیمانیہ کے نظریہ کو مذکورہ بالا فرقوں کے نظریات پر منطبق کیا ہے۔[51]

یہ وہ آراء Ùˆ نظریات تھے جو مفہوم تشیع Ú©Û’ سلسلہ میں قدیم اور معاصر دونوں فرقوں Ú©Û’ علماء Ù†Û’ پیش کیئے، ہم ان نظریات Ú©ÛŒ روشنی میں یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ مفہوم تشیع Ú©Û’ لئے دو اصطلاحیں ہیں:  Û±Û” تشیع Ú©Û’ عمومی معنی، Û²Û” تشیع Ú©Û’ خصوصی معنیٰ۔

جو شخص بھی اس موضوع کو جاننا چاہتا ہے اس کے لئے مفہوم بہت گنجلک ہوگیاہے ، مذکورہ آراء ونظریات جو پیش کئے گئے ہیں ان کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جن لوگوں نے مفہوم تشیع کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے انھوں نے تشیع کے صرف خصوص مفہوم کو بیان کیا ہے عمومی مفہوم سے بالکل سرو کار نہیں رکھا، لہٰذا ہم اس بات کی کوشش کریں گے کہ دونوں کو تقسیم کر کے اصل مسئلہ کی وضاحت کردیں۔

تشیع کا عمومی مفہوم

Û±Û” یہ کہ علی  Ú©Ùˆ صرف عثمان پر افضل جاناہے ابوبکر Ùˆ عمر سے افضل نہیں جانتے، تو اس طرح Ú©ÛŒ شیعیت میں اصحاب Ùˆ تابعین اور تبع تابعین کا بہت بڑا گروہ شامل ہو جائے گا جیسا کہ شمس الدین ذہبی Ù†Û’ ”ابان بن تغلب“ Ú©Û’ حالات میں جن لوگوں Ù†Û’ ان Ú©Û’ شیعہ ہونے Ú©Û’ بارے میں کہا ہے اس سلسلہ میں اظہار خیال کرتے ہیں کہ؛ بدعت دو طرح Ú©ÛŒ ہوتی ہے، بدعت صغریٰ جیسے شیعوں Ú©ÛŒ بدعت، یا شیعوں Ú©ÛŒ بدعت جس میں غلو Ùˆ تحریف نہ ہو، تو اس میں تابعین اور تبع تابعین جو صاحبان دین زہد Ùˆ ورع ہیں ان Ú©ÛŒ کثیر تعداد شامل ہے، اگر ان افراد Ú©ÛŒ حدیثوں Ú©Ùˆ غیر قابل قبول مانا جائے تو تمام احادیث Ùˆ آثار نبوی ختم ہو جائیں Ú¯Û’ اور یہ بہت بڑا نقصان ہوگا، غلو کرنے والے شیعہ گذشتہ زمانے میں تھے اور ان Ú©ÛŒ شناخت یہ ہے کہ وہ لوگ، عثمان، زبیر، طلحہ، معاویہ اور وہ گروہ جنھوں Ù†Û’ علی  سے جنگ Ú©ÛŒ ان پر لعن طعن Ú©Û’ قائل تھے۔[52]

Û²Û” وہ لوگ جو اس بات Ú©Û’ قائل ہیں کہ علی  تمام اصحاب پر فضیلت Ùˆ برتری رکھتے تھے جن میں ابوبکر Ùˆ عمر شامل ہیں، لیکن اس اعتراف Ú©Û’ ساتھ کہ ان دونوں (ابوبکر Ùˆ عمر) Ú©ÛŒ خلافت صحیح تھی اور علی  اور کسی ایک Ú©Û’ لئے بھی کوئی نص نہیں تھی جو علی Ú©ÛŒ خلافت پر دلالت کرے۔

بغدادی فرقہ معتزلہ اور بعض بصریوں نے اس کی مزید وضاحت کی ہے۔

ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ کے شروع ہی میں اس بات کی تفصیل پیش کردی ہے کہ ہمارے تمام شیوخ رحمھم اللّٰہ خواہ وہ متقدمین ہوں یا متاخرین بصری ہوں یا بغدادی سب نے اس بات پر اتفاق کیاہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کی بیعت صحیح اور شرعی تھی گو کہ نص (نبوی یا الٰہی) کے تحت نہ تھی، بلکہ اختیار پر منحصر تھی جواجماع او رغیر اجماع کے ساتھ واقع ہوئی امامت تک رسائی کا یہ بھی ایک راستہ ہے ،خود تفضیل کے سلسلہ میں اختلاف نظر ہے۔

بصری، قدماء میں سے جیسے ابوعثمان، عمروبن عبیدہ، ابی اسحاق، ابراہیم بن یسار النظام، ابوعثمان عمرو بن بحر ابی حظ، ابو معن ثمامہ ابن اثرس، ابو محمد ہشام بن عمور فوطی، ابی یعقوب یوسف بن

      عبد اللہ الشحام اور دوسرے افراد کا کہنا ہے کہ ابوبکر حضرت علی  سے افضل تھے، اور ان لوگوں Ù†Û’ افضلیت Ú©ÛŒ ترتیب مسند خلافت پر آنے Ú©ÛŒ ترتیب سے مرتب Ú©ÛŒ ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next