تيسری فصل



جیسا کہ بغدادی کہتا ہے کہ خدا کے فضل و کرم سے خوارج، رافضی، جہمیہ، قدریہ، مجسّمہ اور سارے گمراہ فرقوں میں نہ ہی کوئی فقہ و رایت و حدیث کا امام ہے اور نہ ہی لغت و علم نحو کا عالم و امام، نہ ہی غزوات و تاریخ و سیرت کا لکھنے والا ہے اور نہ ہی وعظ و نصیحت کہنے والا، اور نہ ہی تفسیر و تاویل کا امام موجود ہے بلکہ ان سارے علوم کا اعم و اخص طور پر جاننے والے صرف اہل سنت و الجماعت میں موجود ہیں۔[44]

ان ساری باتوں کو صرف عناد، دشمنی، کدورت اور کٹ حجتی پر محمول کیا جاسکتا ہے کہ وہ دوسرے افراد میں آثار اسلامی کے معلومات کا سرے سے انکار کرتے ہیں، جبکہ علماء اسلام کے حدیثی، تاریخی، تالیفات ہر فرقہ میں موجود ہیں جس کی گونج سارے کائنات میں ہے۔

بطور نمونہ وہ مولفین جنھوں نے اس میں خلط ملط کیاہے، جیسی کہ وہ تقسیم جس کو ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری متوفی ۳۲۴ھء نے اپنی کتاب ”مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین“ میں فرقہٴ شیعہ کو پہلے بنیادی طور پر تین قسموں پر تقسم کیا ہے، پھر اس میں دوسرے فرقہ کی شاخ نکالی ہے، اس کے بعد ”غلو“ کرنے والوں کو پندرہ فرقوں میں تقسم کیا ہے، پھر امامیہ کا تذکرہ کیا ہے اور ان کو رافضہ کے نام سے یاد کیا ہے پھر ان کو چوبیس (۲۴) فرقوں میں تقسیم کیا ہے، کیسانیہ کو انھوں نے امامیہ میں شریک و شمار کیا ہے، درحقیقت یہ ”غلاة“ کا ایک فرقہ ہے امامیہ سے ان کا کوئی سرو کار نہیں، پھر زیدیہ کا تذکرہ کیا ہے اور ان کو تین گروہوں میں تقسیم کیاہے، جارودیہ، بتریہ، سلیمانیہ پھر ان گروہوں کو دوسرے گروہوں میں تقسیم کیاہے، اکثر افراد نے غلطی کی ہے اور سلیمانیہ کو زیدیہ کے فرقوں میں شمار کیا ہے، جب کہ ان کے سارے عقائد اہل سنت و الجماعت سے بہت زیادہ مشابہ ہیں۔

افسوس اس بات پر ہے کہ اس عصر کے اکثر مولفین نے اس روش کی مکمل پیروی کی اور ان گذشتہ کتابوں پر اندھا بھروسہ کیا اور تحقیق و تفحص سے بالکل کام نہیں لیا، کسی فرقہ یا گروہ کے مبانی و مصادر کی طرف بالکل رجوع نہیں کیا تاکہ ان گروہ کے ذمہ داروں کی زبان سے ان کے عقائد کو جان سکیں، بلکہ مخالف فرقہ کے مقالات پر تکیہ کیا اور جو کچھ انھوں نے جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کردیا اس کو آنکھ بند کر کے قبول کرلیا۔

ان ساری باتوں کو پیش کرنے کا ہمارا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم اصل شیعیت کے وجود کو جان سکیں جو کہ ہمارا اصل موضوع ہے یعنی (شیعیت کی نشو و نما) لہٰذا ہم اس بات کی حتی الامکان کوشش کریں گے کہ زمانوں کا اصل اثر ثابت کرسکیں جو شیعیت پر بیتے ہیں اور اس حقیقت سے پردہ اٹھا سکیں جس کو صاحبان کتب نے ڈالا ہے اور شیعہ عقائد میں ان تمام خرافات کو شامل کردیاہے جو ان کے عقائد سے بالکل میل نہیں کھاتے اور نہ ہی شیعہ حضرات ان عقائد کو کسی بھی رخ سے قبول کرتے ہیں۔

لہٰذا ہم پہلے مفہوم تشیع کو بیان کریں گے اس کی بعد اس کے اہم بنیادوں کو وضاحت کے ساتھ پیش کریں گے اس کے بعد شیعہ اور ان کے اٴئمہ کے موقف کو غلو اور غلاة (غلو کرنے والوں) کے سلسلہ میں عرض کریں گے۔

 Ù…فہوم تشیع

صاحبان کتب نے شیعہ اور تشیع کے بارے میں متعدد لفظوں میں تعریف کی ہے ان میں سے اہم نظریات کو پیش کر رہے ہیں:

Û±Û” ابو الحسن اشعری: جن لوگوں Ù†Û’ علی کا ساتھ دیا اور ان Ú©Ùˆ تمام اصحاب رسول  Ù¾Ø± برتر جانتے ہیں، وہ شیعہ ہیں۔[45]

Û²Û” ابن حزم مفہوم تشیع Ú©Û’ بارے میں کہتا ہے: شیعہ کا نظریہ ہے کہ علی  رسول  Ú©Û’ بعد افضل امت اورامامت Ú©Û’ حقدار ہیں اور ان Ú©Û’ بعد وارث امامت، ان Ú©Û’ فرزند ہیں، درحقیقت یہی شیعہ ہیں، ہر چند کہ مذکورہ باتوں Ú©Û’ سلسلہ میں مسلمانوں کا اختلاف ہے اور ان عقائد کا مخالف شیعہ نہیں ہوسکتا۔[46]

      Û³Û” شہرستانی Ù†Û’ Ú©Ú†Ú¾ یوں تعریف Ú©ÛŒ ہے: شیعہ وہ ہیں جو خاص طور سے علی  Ú©Û’ حامی رہے اور اس بات Ú©Û’ معتقد ہیں کہ ان Ú©ÛŒ امامت Ùˆ وصایت نص اور رسول  Ú©ÛŒ وصیت سے ثابت ہے چاہے ظاہری ہو یا باطنی اور اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان Ú©ÛŒ اولادوں Ú©Û’ علاوہ دوسرا حقدار نہیں، اگر امامت دوسرے Ú©Û’ پاس گئی تو یقینا ظلم کا عمل دخل ہے یا تقیہ Ú©Û’ سبب ہے اور اس بات Ú©Û’ قائل ہیں کہ امامت کوئی مصلحتی عہدہ نہیں ہے جو امت مسلمہ Ú©Û’ ہاتھوں Ø·Û’ پائے اور امت Ú©Û’ انتخاب سے امام معین ہو جائے، بلکہ یہ ایک اصولی مسئلہ ہے یہ رکن دین ہے خود رسولوں Ú©Û’ لئے بھی اس مسئلہ میں تساہل Ùˆ سہل انگاری جائز نہیں اور نہ ہی وہ امت Ú©Û’ ہاتھوں (انتخاب امام) کا فیصلہ سپرد کرسکتے ہیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 next