منازل الآخرت



< وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِی کُلِّ اٴُمَّةٍ شَہِیدًا عَلَیْہِمْ مِنْ اٴَنفُسِہِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَہِیدًا عَلَی ہَؤُلاَء>[153]

”اور (وہ دن یاد کرو جس دن ھم ہر ایک گروہ میں سے ا نھیںمیں کا ایک گواہ ان کے مقابل لا کھڑا کریں گے اور (اے رسول)تم کو ان لوگوں پر (ان کے)مقابل میں گواہ بنا کر لاکھڑا کریں گے“۔

قارئین کرام!  یہ آیہٴ مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی Ú¾Û’ کہ ہر زمانہ میں ایک ایسی شخصیت کا ھونا ضروری Ú¾Û’ جس کا قول اس زمانہ Ú©Û’ افراد Ú©Û’ لئے حجت Ú¾Ùˆ اور وہ خدا Ú©Û’ نزدیک عدل (بہت زیادہ عادل) ھو، اسی مطلب Ú©Ùˆ جبّائی صاحب اور اکثر اہل عدل مانتے ھیں، اور یھی قول علمائے شیعہ Ú©ÛŒ نظر Ú©Û’ موافق Ú¾Û’ØŒ اگرچہ اختلاف پایا جائے جاتا Ú¾Û’ کہ وہ عدل اور حجت (خدا ) کون Ú¾Û’ØŸÛ”[154]

یہ بات واضح ھے کہ تمام امت کا انتخاب نھیں کیا جاسکتا اور نہ تمام امت عادل ھوسکتی ھے جن کو لوگوں کے لئے گواہ بنایا جاسکے، بہت سے ایسے ھیں کہ جن کی حالت لوگوں پر مخفی نھیں ھے، لہٰذا یہ صفات بعض افراد سے مخصوص ھےں ، پس انھیں بعض لوگوں کو انتخاب کیا جائے گا۔

تفسیر عیاشی میں درج ذیل آیت :

< وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اٴُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا>[155]

”(اور جس طرح تمہارے قبلہ کے بارے میں ہدایت کی )اسی طرح تم کو عادل امت بنایا تاکہ اور لوگوں کے مقابلہ میں گواہ بنیں “۔

کی تفسیر میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ھے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا:

”فان ظننت اٴن الله تعالیٰ عنی بہذہ الآیة جمیع اٴہل القبلة من الموحّدین، اٴفتری اٴن من لاتجوز شہادتہ فی الدنیا علی صاع من تمر، یطلب الله شہادتہ یوم القیامة، و یقبلھامنہ بحضرة جمیع الاٴمم الماضیة؟ کلا لم یعن الله مثل ہذا من خلقہ، یعنی الاٴمة التي وجبت لھادعوة ابراھیم علیہ السلام< کُنْتُمْ خَیْرَ اٴُمَّةٍ اٴُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ>[156]

 ÙˆÚ¾Ù… الاٴمة الوسطیٰ، ÙˆÚ¾Ù… خیر اُمّة اُخرجت للناس“۔[157]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 next