منازل الآخرت



”لا ،ان الاعمال لیست باجسام ،و انما ھی صفة ما عملوا وانما یحتاج الی وزن الشيء من جھل عدد الاشیاء۔ولا یعرف ثقلھا اوخفتھا، وان اللہ لایخفی علیہ شیء،قال فمامعنی المیزان؟، قال:”العدل“،قال فما معناہ فی کتابہ < فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ>[177]؟قال:فمن رجح عملہ“۔[178]

”نھیں، اعمال کا کوئی جسم نھیں ھے، بلکہ اعمال اس صفت کانام ھے جس کو لوگ انجام دیتے ھیں، کسی چیز کا وزن کرنا اور تولنا تو اس شخص کے لئے ضروری ھے جو چیزوں کی حقیقت سے جاہل ھو اور اس کے وزن کو نہ جانتا ھو، بے شک اللہ تعالیٰ پر کسی چیز کا علم مخفی نھیں ھے، زندیق نے سوال کیا تو پھر میزان کے کیا معنی ھیں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میزان کے معنی ”عدل“ کے ھیں، پھر وہ بولا تو پھر قرآن مجید کی اس آیت کے کیا معنی ھیں:”پھر تو جن کے (نیک اعمال کے)پلے بھاری ھوں گے “،تو امام علیہ السلام نے فرمایا: جس کے عمل کی ترجیح ھوگی “۔

تیسرا قول:   میزان Ú©Û’ معنی حساب Ú©Û’ ھیں، اور میزان کا بھاری اور ہلکا ھونا حساب Ú©Û’ Ú©Ù… یا زیادہ ھونے کا کنایہ Ùˆ اشارہ Ú¾Û’ØŒ جیسا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے روایت Ú¾Û’ :

”ومعنی قولہ :< فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ>،< وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُہُ>فھو قلة الحساب و کثرتہ، والناس یومئذ علی طبقات ومنازل ،فمنھم من یحاسب حساباًیسیراو ینقلب الی اھلہ مسروراً، ومنھم الذین یدخلون الجنة بغیر حساب ،لانھم لم یتلبسوا من امرالدنیا بشیء ،وانما الحساب ھناک علی من تلبس ھاھنا،ومنھم من یحاسب علی النقیر والقطمیر،ویصیرالی عذاب السعیر،ومنھم ائمة الکفرو قادةالضلال،فاولئک لایقیم لھم وزناً ولایعبابھم،لانھم لم یعباٴوابامرہ ونھیہ،فھم فی جھنم خا لد و ن ، تلفح وجوھھم النار ،وھم فیھا کالحون“۔[179]

”ان دونوں آیتوں سے مرادحساب کا کم یا زیادہ ھونا ھے، کیونکہ لوگوں کی کئی قسمیں ھیں ایک گروہ وہ ھوگا جن کا حساب بہت آسان ھوگا، اور وہ اپنے اہل و عیال کے پاس خوشحال واپس آئیں گے، ان میں سے ایک گروہ ایسا ھوگا جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ھوجائے گا کیونکہ وہ دنیا کی کسی چیز میں مشغول نھیں ھوئے ھیں، بے شک حساب ان لوگوں کا ھوگا جو دنیاوی کاموں میں مشغول رھے ھیں، ان میں سے ایک گروہ وہ ھوگا جس کا حساب سخت ھوگا اور ان کو جہنم کے درد ناک عذاب میں بہت جلد بھیج دیا جائے گا، یہ گروہ گمراہ اور ضلالت کے سرداروں کا ھوگا، پس یھی لوگ بے اھمیت ھوں گے اور ان پر کوئی توجہ نھیں دی جائے گی کیونکہ انھوں نے خدا وندعالم کے احکام پر کوئی توجہ نھیں کی ھے، یھی لوگ ھمیشہ کے لئے جہنم میں رھیں گے، اور ان کے چہرے جہنم کی آگ میں جلتے رھیں گے اور یھی لوگ جہنم کے دردناک عذاب میں گرفتارر ھیں گے“۔

چوتھا قول:  میزان اور موازین( صیغہ جمع) سے مراد انبیاء اور اوصیاء ھیں جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے اس آیت <نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطِ لِیَوْمِ الْقِیَامَةِ>Ú©ÛŒ تفسیر Ú©Û’ بارے میں بیان ھوا Ú¾Û’:

تو امام علیہ السلام نے فرمایا:”الموازین :الا نبیاء والاوصیاء“۔[180]

”موازین (جمع میزان) سے مراد انبیاء اور اوصیاء الٰھی ھیں“۔

پس انبیاء اور اوصیاء علیھم السلام وہ پیمانے ھیں جن کے ذریعہ حق و عدل کی شناخت ھوگی، اور وہ اعمال کے لئے رجحان ھیں اور یہ رجحان ان کے ایمان کے برابر ھوگا اور جتنا انبیاء و اوصیاء علیھم السلام سے محبت اور ان کی اطاعت و پیروی ھوگی اسی لحاظ سے ھوگا۔

قارئین کرام!  میزان Ú©Û’ سلسلے میں( چار) اھم قول اور احادیث تھیں کہ بعض مصادیق Ú©Ùˆ آپ حضرات Ù†Û’ سمجھ لیا Ú¾Û’ØŒ لیکن میزان Ú©ÛŒ تفصیل Ú©Û’ بارے میں عقیدہ رکھنا ضروری نھیں Ú¾Û’ بلکہ کسی تفصیل اور حقیقت Ùˆ ماھیت Ú©Û’ بغیرصرف اجمالی طور پر ”میزان“ Ú©Û’ اوپر عقیدہ رکھنا واجب Ú¾Û’ Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 next