امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



اب يہاں ايک سوال اور ابھرتا ہے کہ کون ہے جو اِس اہم ترين Ø­Ú©Ù… پر عمل کرے؟ اس عظيم Ø­Ú©Ù… پر نبي اکرم  کا کوئي جانشين ہي عمل کرسکتا ہے اور وہ ايسے زمانے ميں موجود ہو کہ معاشرہ اِس انحراف کا شکار ہوگيا ہو؛ البتہ اِس Ú©ÙŠ ايک بنيادي شرط يہ ہے کہ اِس Ø­Ú©Ù… پر عمل درآمد کيلئے حالات مناسب ہوں؛ اِس ليے کہ خداوند عالم کسي ايسے عمل Ú©Ùˆ واجب نہيں کرتا کہ جس کا کوئي فائدہ نہ ہو۔ لہٰذا اگر حالات نامناسب ہوں اوريہ جانشين نبي  کتني ہي محنت کيوں نہ کرے تو اُس Ú©Û’ عمل اور جدوجہد کا کوئي نتيجہ نہيں Ù†Ú©Ù„Û’ گا لہٰذا عمل درآمد کرنے کيلئے حالات Ú©Ùˆ مناسب Ùˆ موزوں ہونا چاہيے Û”

اِس بات کي طرف بھي توجہ ضروري ہے کہ حالات کے مناسب ہونے کا معني کچھ اور ہے؛ نہ يہ کہ ہم يہ کہيں کہ چونکہ اِس حکم کو عملي جامہ پہنانے کي راہ ميں خطرات موجود ہيں لہٰذا حالات سازگار نہيں ہيں ! حالات کے سازگار ہونے کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے ۔ حالات و شرائط کو مناسب ہونا چاہيے يعني انسان يہ جانے کہ اگر اُس نے عمل کو انجام ديا تو اِس کا ايک نتيجہ ظاہر ہوگا، يعني لوگوں تک پيغام پہنچ جائے گا، عوام اِس نتيجے سے حقيقت کو سمجھيں گے اور شک و ترديد کے تمام سياہ بادل اُن کے سامنے سے ہٹ کر حقيقت کا اُفق اُن کيلئے روشن و صاف ہوجائے گا ۔

 

امام حسين کے زمانے ميں انحراف بھي تھااور حالات بھي مناسب تھے!

حضرت سيد الشہدا کے زمانے ميں يہ انحراف وجود ميں آچکا تھا اور اِس انحراف کو ختم کرنے کے حکم الٰہي پر عمل درآمد کيلئے حالات بھي مناسب تھے ۔ پس اِن حالات ميں امام حسين کو قيام کرنا چاہيے تھا کيونکہ انحرافات اور بدعتوں نے اسلامي معاشرے کو مکمل طورسے اپني لپيٹ ميں لے ليا تھا ۔ وہ مناسب حالات يہ ہيں کہ معاويہ کے بعد ايسا شخص حکومت کا مالک بن بيٹھا ہے (يا جسے پہلے سے تيار شدہ ايک جامع منصوبہ بندي کے تحت ولي عہد بنايا گيا تھا تاکہ اسلام کو نابود کرنے کے بنو اُميہ کے ديرينہ منصوبے پر عمل درآمد کيا جاسکے) جو اسلام کے ظاہري احکام و آداب کي ذرّہ برابر بھي رعايت نہيں کرتا ہے! وہ اايسا ( خودساختہ) خليفہ مسلمين ہے جو شراب پيتا ہے اور اسلامي شريعت کي کھلم کھلا مخالفت اُس کا وطيرہ ہے ، جنسي گناہوں ، ديگر برائيوں اورقبيح ترين اعمال کا علي الاعلان ارتکاب اُس کا شيوہ ہے ، قرآن کے خلاف باتيں کرنا اُس کي عادت ہے، وہ قرآن کي مخالفت اور دين کي تحقير و اہانت کيلئے اشعار باطلہ سے اپني محفل کو زينت ديتا ہے؛ خلاصہ يہ کہ وہ اسلام کا کھلا ہوا دشمن ہے!

چونکہ وہ نام کا خليفہ مسلمين ہے لہٰذا وہ اسلام کے نام کو مکمل طور سے ختم نہيں کرنا چاہتا ۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ نہ اسلام کا پيروکار ہے، نہ اُسے اسلام سے کوئي دلچسپي ہے اور نہ ہي اُس کا دل اسلام کيلئے دھڑکتا ہے بلکہ اپنے عمل ميں اُس چشمے کي مانند ہے کہ جس سے مسلسل گند گي اور بدبو دار پاني اُبل اُبل کر پوري وادي کو خراب و بدبودار کررہا ہے اور اپنے وجود کے گندے اور بدبودار اعمال سے پورے اسلامي معاشرے کي فضا کو متعفّن و آلودہ کررہا ہے! ايک برا اور فاسد حاکم ايسا ہي ہوتا ہے ۔ چونکہ حاکم، معاشرے ميں سب سے اونچے اور بلند ترين منصب کا حامل ہوتا ہے بالکل ايک بلند ترين چوٹي کي مانند، لہٰذا اُس سے جو بھي عمل صادر ہوگا اُس کے اثرات صرف اُسي چوٹي تک ہي محدود نہيں رہيں گے بلکہ اُس سے نيچے آکر اطراف کے علاقے کو اپني لپيٹ ميں لے ليں گے جبکہ عام عوام و افراد کا عمل اِس خاصيت کا حامل نہيں ہوتا ہے ۔

عام افراد کا عمل صرف اُنہي کي چار ديواري اور ذات کے دائرے کے اندر رہتا ہے؛ ليکن جس کا مرتبہ و منصب جتنا بلند ہو اور وہ معاشرے ميں جتنے بڑے درجے کا مالک ہو اُس کي برائيوں کا نقصان بھي اُسي نسبت سے زيادہ ہوتا ہے ۔ عام آدميوں کي برائياں اور غلطياں ممکن ہے کہ صرف اُنہي کيلئے يا اُن کے اطراف ميں موجود چند افراد کيلئے نقصان دہ ہوں ليکن جو کسي بڑے عہدے اور درجے کا مالک ہے اگر برائيوں اور غلطيوں کا ارتکاب کرنے لگے تو اُس کے اعمال کے برے اثرات اطراف ميں پھيل کر پورے معاشرتي ماحول کو آلودہ کرديں گے ۔ اِسي طرح اگر معاشرے ميں کسي اعليٰ منصب و مرتبے پر فائز ہونے والا شخص نيک ہوجائے تو اُس کے نيک اعمال کے اثرات اور خوشبو پورے معاشرے کو اپني لپيٹ ميں ليکر ماحول و فضا کو معطر کردے گي۔

معاويہ Ú©Û’ بعدايک ايسا ہي شخص منبر رسول  پر بيٹھ کر خليفہ مسلمين بن گيا ہے اور اپنے آپ Ú©Ùˆ جانشين پيغمبر  کہتا ہے ! کيا اِس سے بڑھ کر بھي کوئي انحراف ہوگا؟! اب اِس Ø­Ú©Ù… الٰہي پر عمل درآمد کرنے Ú©Û’ حالات Ùˆ شرايط مہيا ہوگئے ہيں Û” حالات مناسب Ùˆ سازگار ہيں، اِس کا مطلب کيا ہے؟ کيا اِس کا مطلب يہ ہے کہ اِس راہ ميں کوئي خطرہ موجود نہيں ہے؟ کيوں نہيں، خطرہ موجود ہے Û” کيا يہ بات ممکن ہے کہ کسي اقتدار کا مالک اپنے مقابلے پر آنے والوں کيلئے خطرناک ثابت نہ ہو؟! يہ تو کھلي جنگ ہے؛ آپ چاہتے ہيں کہ اُس کا تخت Ùˆ تاج اور اقتدار چھين ليں او ر وہ بيٹھ کر صرف تماشا ديکھے! واضح سي بات ہے کہ وہ بھي پلٹ کر آپ پر حملہ کرے گا، پس خطرہ ہر حال ميں موجود ہے Û”

 

سب آئمہ کا مقام امامت برابر ہے!

يہ جو ہم کہتے ہيں کہ حالات مناسب ہيں تو اِس کا مطلب يہ ہے کہ اسلامي معاشرے کا ماحول اور سياسي و اجتماعي حالات ايسے ہيں کہ ممکن ہے کہ اِس زمانے ميں اور پوري تاريخ ميں انسانوں تک امام حسين کا پيغام پہنچ جائے ۔ اگر معاويہ کے دور حکومت ميں امام حسين قيام کرتے تو اُن کا پيغام دفن ہو جاتا ۔ وجہ يہ ہے کہ معاويہ کے دور حکومت ميں (اجتماعي و ثقافتي) حالات اور سياست ايسي تھي کہ لوگ حق بات کو نہيں سن سکتے تھے (يا اُن ميں حق و باطل ميں تشخيص کي صلاحيت نہيں تھي)! يہي وجہ ہے کہ امام حسين معاويہ کي خلافت کے زمانے ميں دس سال امام رہے ليکن آپ کچھ نہيں بولے اور کسي قيام و اقدام کيلئے کوئي کام انجام نہيں ديا چونکہ حالات مناسب نہيں تھے ۔

امام حسين سے قبل امام حسن امام وقت تھے، اُنہوں نے بھي قيام نہيں کيا چونکہ اُن کے زمانے ميں بھي اِس کام کيلئے حالات غير مناسب تھے؛ نہ يہ کہ امام حسن و امام حسين ميں کا م کو انجام دينے کي صلاحيت و قدرت نہيں تھي۔ امام حسن و امام حسين ميں کوئي فرق نہيں ہے، اِسي طرح امام حسين اور امام سجاد اور امام علي نقي و امام حسن عسکري ميں بھي کوئي فرق نہيں ہے! صحيح ہے کہ سيد الشہدا نے چونکہ قيام کيا ہے لہٰذا اُن کا قيام و منزلت اُن آئمہ سے زيادہ ہے کہ جنہوں نے قيام نہيں کيا، ليکن مقام امامت کے لحاظ سے سب آئمہ برابر ہيں ۔ آئمہ ميں اگرکسي ايک کيلئے بھي کربلاجيسے کے حالات پيش آتے تو وہ قيام کرتے اور اُسي مقام پر فائز ہوتے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next