امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



 

معاشرتي زندگي اور اُس کي بقا ميں حقيقي ذمہ داري کي شناخت کي اہميت

آج ممکن ہے کہ ہم بھي اِس بلا ميں گرفتار ہوجائيں اور اہم ترين افر اور کم اہميت والے امر کي تشخيص ميں غلطي کر بيٹھيں ۔ لہٰذا حقيقي ذمہ داري کي شناخت بہت ضروري ہے جو کسي بھي معاشرے کي حيات و بقا ميں بہت اہميت کي حامل ہو تي ہے ۔

ايک زمانہ تھا کہ اِس ملک ميں استعمار، استبداد اور طاغوتي نظام حکومت کے خلاف ميدانِ مبارزہ موجود تھا ليکن بعض ايسے افراد بھي تھے جو اِ س مبارزے اور قيام کو اپنا وظيفہ نہيں سمجھتے تھے اور اُنہوں نے دوسرے امور کو اپنا ہدف بنايا ہوا تھا ۔ اگر کوئي اُس وقت کسي جگہ تدريس علم ميں مصروف عمل تھا يا کسي کتاب کي تاليف وجمع آوري ميں کوشاں تھا ، يا اگر محدود پيمانے پر تبليغ ميں سرگرم عمل تھا يا اگر کسي نے ديني و مذہبي امور کے ساتھ ساتھ مختصر پيمانے پر عوام الناس کي ہدايت کو اپنے ذمہ ليے ہوا تھا تو وہ يہ سوچتا تھا کہ اگر وہ جہاد ميں مصروف ہوجائے گا تو يہ سارے امور يونہي ادھورے پڑے رہ جائيں گے ! لہٰذا وہ اِس فکر و خيال کے نتيجے ميں اُس عظيم اور اہميت والے جہاد اور قيام کو ترک کرديتا تھا اور لازم و غير ضروري يا اہم ترين اور اہم امور کي تشخيص ميں غلطي کر بيٹھتا تھا ۔

سيد الشہدا Ù†Û’ اپنے بيانات سے ہميں سمجھايا کہ ايسے حالات ميں طاغوتي طاقتوں سے مقابلہ اور طاغوتي اور شيطاني قدرت Ùˆ طاقتوں سے انسانوں Ú©ÙŠ نجات کيلئے اقدام کرنا دنيائے اسلام کيلئے واجب ترين کاموں ميں سے ايک کام ہے Û” واضح ہے کہ سيد الشہدا اگر مدينے ميں ہي قيام پذير رہتے تو عوام ميں احکام الٰہي اور تعليمات اہل بيت Ú©ÙŠ تبليغ فرماتے اور Ú©Ú†Ú¾ افراد Ú©ÙŠ تربيت کرتے ؛ليکن اگر ايک حادثہ رُونما ہونے Ú©ÙŠ وجہ سے مثلاً عراق Ú©ÙŠ طرف حرکت فرماتے تو آپٴ Ú©Ùˆ اِن تمام کاموں Ú©Ùˆ خير آباد کہنا پڑتا اور اِس حالت ميں آپٴ لوگوں Ú©Ùˆ نماز اوراحاديث نبوي  Ú©ÙŠ تعليم نہيں دے سکتے تھے، آپ Ú©Ùˆ اپنے درس Ùˆ مکتب اور تعليمات Ú©Û’ بيان Ú©Ùˆ خدا حافظ کہنا پڑتا اور يتيموں ØŒ مفلسوں اور فقرائ Ú©ÙŠ مدد کہ جو آپ مدينے ميں انجام ديتے تھے، سب Ú©Ùˆ چھوڑنا پڑتا!

اِن تمام امور ميں سے ہر ايک ايسا وظيفہ تھا کہ جسے سيد الشہدا انجام دے رہے تھے ليکن آپ ٴ نے يہ تمام ذمہ دارياں ايک عظيم اور اہم ذمہ داري پر قربان کردي! يہاں تک کہ حج بيت اللہ کو اُس کے آغاز ميں کہ جب مسلمان پوري دنيا سے حج کيلئے آرہے تھے، اِس عظيم ترين فريضے پر فدا کرديا، بالآخر وہ ذمہ داري کيا تھي؟

 

آج واجب ترين کام کيا ہے؟

جيسا کہ خود امام حسين نے٧ فرمايا کہ ظلم و فساد اوربرائي کے نظام سے مقابلہ واجبات ميں سے ايک واجب ہے ۔ ’’اُرِيدُ اَن آمُرَ بِالمَعرُوفِ وَ اَنہٰي عَنِ المُنکَرِ وَاُسِيرُ بِسِيرَۃِ جَدَّ وَاَبِ ‘‘ ١ يا ايک اور خطبے ميں آپٴ نے ارشاد فرمايا: ’’اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ قَد قَالَ فِي حَيَاتِہِ مَن رَآَيٰ سُلطَاناً جَآئِرًا مُستَحِلًّا لِحَرامِ اللّٰہِ نَاکِثًا لِعَھدِ اللّٰہِ ، مُخَالِفًا لِسُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ يَعمَلُ فِي عِبَادِ اللّٰہِ بِالاِثمَ وَالعُدوَانِ ثُمَّ لَم يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ کَانَ حَقًّا عَلٰے اللّٰہِ اَن يَدخُلَہُ مَدخَلَہُ‘‘ ٢ يعني وظيفہ ’’اِغَارَۃ‘‘ ہے يا بہ عبارت ديگر ايسے سلطان ظلم و جور کے خلاف حالات کو تبديل کرنا کہ جو برائيوں کو عام کررہا ہے اور ايسے نظام حکومت کے خلاف قيام کرنا جو انسانوں کو نابودي اور مادي اور معنوي فنا کي طرف کھينچ رہا ہے ۔

يہ تھي امام حسين اِس کي تحريک کو امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کا مصداق بھي قرار ديا گيا ہے اور امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کي ذمہ داري ميں حتماً اِن نکات کي طرف توجہ ہوني چاہيے ۔ يہي وجہ ہے کہ سيد الشہدا ايک اہم ترين واجب کي ادائيگي کيلئے اقدام کرتے ہيں اور دوسري بہت سي اہم ذمہ داريوں کو اِس اہم ترين ذمہ داري پر قربان کرديتے ہيں اور اِس بات کو تشخيص کرتے ہيں کہ آج کيا ذمہ داري ہے؟

 

آج اِس بات کي گنجائش نہيں ہے کہ ہم دشمن کي شناخت



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next