امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



 

امامت و ملوکيت کا فرق!

خدا وند عالم کا عطا کردہ’’ ہدايت کانظام امامت‘‘ ؛ ملوکيت وسلطنت ميں تبديل ہوگيا! نظام امامت کي حقيقت و اصليت؛ سلطنت و ملوکيت کے نظام کي حقيقت و جوہر سے مختلف ہے، اُس سے مکمل طورپر تناقض رکھتي ہے اور يہ دونوں ايک دوسرے کي ضد ہيں ۔ امامت يعني روحاني اور معنوي رہبري و پيشوائي، لوگوں سے ايک قلبي اور اعتقادي رابطہ ليکن ملوکيت و سلطنت يعني ظلم و قدرت اور فريب کي حکومت کہ جس ميں عوام اور حکومت ميں کوئي قلبي ، معنوي اور ايماني رشتہ و رابطہ قائم نہيں ہوتااور يہ دونوں بالکل ايک دوسرے کے مدّ مقابل ہيں ۔ امامت؛ امّت کے درميان، امت کیلئے اور امت کي خير و بھلائي کيلئے ايک رواں اور شفاف چشمہ ہے جبکہ ملوکيت و سلطنت؛ عوام کي مصلحت پر زور زبردستي کا راج، سلطنت يعني خاص افراد کي فلاح و بہبود کي حکومت اور حکام و سلاطين کيلئے ثروت اندوزي اور شہوت راني کے وسائل فراہم کرنے کے امکانات! ہم امام حسين کے زمانے حکو مت کي جتني تصويريں ديکھتے ہيں ہميں ہر طرف ملوکيت و سلطنت ہي نظر آتي ہے ۔

جب يزيد برسر اقتدار آيا تو اُس کا لوگوں سے نہ کوئي رابطہ تھا اور نہ وہ علم Ùˆ پرہيز گاري اور پاکدامني اور تقويٰ Ú©ÙŠ الف ب سے واقف تھا؛راہ خدا ميں جہادکرنے کااُس کانہ کوئي سابقہ تھا اور نہ ہي وہ معنويت Ùˆ روحانيت پر يقين Ùˆ اعتقاد رکھتا تھا؛ نيزنہ اُس کا کردار ايک مومن Ú©Û’ کردارکي مانند تھا اور نہ اُس Ú©ÙŠ گفتارايک حکيم Ùˆ دانا Ú©ÙŠ گفتار تھي اور سنتِ رسول  سے اُس کا دور دور کاکو ئي واسطہ نہيں تھا Û” اِن حالات ميں حسين ابن علي کیلئے جو ايسے امام Ùˆ رہبر تھے کہ جنہيں مسند رسول پر بيٹھنا چاہيے تھا، ايسے حالات پيش آئے اور اُنہوں Ù†Û’ قيام کيا Û”

 

قيام امام حسين کا اصل ہدف

اگر اِس واقعہ کا ظاہري تجزيہ و تحليل کيا جائے تو بظاہر يہ قيام، ظلم کي بنيادوں پر قائم يزيد کي با طل حکومت کے خلاف تھا ليکن حقيقت ميں يہ قيام ؛اسلامي اقدار کے اِحيائ ، معرفت و ايمان کو جلادينے اور عزت کے حصول کيلئے تھا اور اِس کا مقصد يہ تھا کہ امت کوذلت و پستي ، رسوائي اور جہالت سے نجات دي جائے ۔

لہٰذا يہي وجہ ہے کہ جب سيد الشہدا مدينہ تشريف Ù„Û’ جارہے تھے تو اپنے بھائي محمد ابن حنفيہ Ú©Û’ نام يہ تحرير Ù„Ú©Ú¾ÙŠØŒ ’’اِنِّي لَمْ اَخرُج اَشِرًا ÙˆÙŽ لاَ بَطِرَاً وَلاَ مُفسِدًا وَلَا ظَالِمًا اِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْاِصْلَاحِ فِي اُمَّۃِ جَدِّي‘‘ ؛’’ميں غرورو تکبر ،فخر ومباہات اور ظلم Ùˆ فساد کيلئے قيام نہيں کررہا ہوں،ميں ديکھ رہا ہوں کہ امت محمدي Ú©ÙŠ حالت تبديل ہوگئي ہے اور لوگ غلط سمت اور انحطاط Ú©ÙŠ طرف حرکت کررہے ہيں اور اُس جانب قدم بڑھارہے ہيں کہ جو اسلام اور پيغمبر اکرم  Ú©ÙŠ بتائي ہوئي سمت Ú©Û’ خلاف ہے اور ميں Ù†Û’ اِسي انحراف اور خرابي سے مقابلے کيلئے قيام کيا ہے‘‘۔

 

سيد الشہدا کے مبارزے کي دو صورتيں

امام حسين کے قيام ومبارزے کي دوصورتيں ہيں اور دونوں کا اپنا اپنا الگ نتيجہ ہے اور دونوں اچھے نتائج ہيں؛ ايک نتيجہ يہ تھا کہ امام حسين يزيدي حکومت پر غالب و کامياب ہوجاتے اور لوگوں پر ظلم و ستم کرنے والوں سے زمام اقتدار چھين کر امت کي صحيح سمت ميں راہنمائي فرماتے،اگر ايسا ہوجاتا تو تاريخ کي شکل ہي بدل جاتي۔ دوسري صورت يہ تھي کہ اگر کسي بھي وجہ اور دليل سے يہ سياسي اور فوجي نوعيت کي کاميابي آپ کيلئے ممکن نہيں ہوتي تو اُس وقت امام حسين اپني زبان کے بجائے اپنے خون، مظلوميت اور اُس زبان کے ذريعہ کہ جسے تاريخ ہميشہ ہميشہ کيلئے ياد رکھتي، اپني باتيں ايک رواںاور شفاف پاني کي مانند تاريخ کے دھارے ميں شامل کرديتے اور آپ نے يہي کام انجام ديا ۔

البتہ وہ افراد جو بڑے بڑے زباني وعدے کرتے اور اپنے ايمان کي مضبوطي کا دم بھرتے تھے اگر ايسا نہ کرتے تو پہلي صورت وجود ميں آتي اور امام حسين اُسي زمانے ميں دنيا و آخرت کي اصلاح فرماديتے ليکن اِن افراد نے کو تاہي کي! اِس کوتاہي کے نتيجے ميں وہ پہلي صورت سامنے نہيں آسکي اور نوبت دوسري صورت تک جا پہنچي۔ يہ وہ چيز ہے کہ جسے کوئي بھي قدرت امام حسين سے نہيں چھين سکتي اور وہ ميدانِ شہادت ميں جانے کي قدرت اورراہِ دين ميں اپني اور اپنے عزيز و اقارب کي جان قربان کرنا ہے ۔ يہ وہ ايثار و فداکاري ہے کہ جو اتني عظيم ہے کہ اِس کے مقابلے ميں دشمن کتني ہي ظاہري عظمت کا مالک کيوں نہ ہو، وہ حقير ہے اور اُس کي ظاہري عظمت ختم ہوجاتي ہے اور يہ وہ خورشيد ہے کہ جو روز بروز دنيائے اسلام پر نور افشاني کررہا ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next