امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



٣۔ مصائب کربلا ميں عنصر عزت

کربلا کے تيسرے پہلو يعني مصائب اور مشکلات ميں بھي جابجا مقامات پر عزت و افتخار اور سربلندي کا عنصر نظر آتا ہے ۔ اگرچہ کہ يہ مصائب کا ميدان اور بابِ شہادت ہے، اگرچہ کہ جوانانِ بني ہاشم ميں سے ہر ايک کي شہادت،بچوں کي، اطفال صغير کي اور بزرگ اور عمررسيدہ اصحاب کي شہادت حضرت سيد الشہدا کيلئے ايک بہت بڑے غم اور مصائب کا باعث ہے ليکن اِس کے خوداُن کیلئے اور مکتب ِتشيع کيلئے عزت و سربلندي کا باعث ہے ۔ ١

----------

١ ’’دو کوھہ‘‘ فوجي تربيتي کيمپ ميں عوامي اجتماع سے خطاب 29/3/2002

ہمارا وظيفہ :شہادت کي حقيقت و ذکر کو زندہ رکھنا

بنيادي طور پر اربعين (چہلم) کي اہميت اِس بات ميں ہے کہ اِس دن خداوند عالم کي تدبير اور خاندان اہل بيت کي کوششوں سے امام حسين کي تحريک و قيام کا ذکر ہميشہ کيلئے زندہ و جاويد ہوگيا اور روزِ اربعين اِس کام کي مضبوط و مستحکم بنياديں رکھي گئيں ۔ اگر شہدائ کے ورثا اور اصلي جانشين، حضرت امام حسين کي روزِ عاشورا شہادت اور ديگر واقعات کے ذکر اور اُن کي شہادت کے آثار و نتائج کي حفاظت کيلئے کمر بستہ نہ ہوتے تو آنے والي نسليں شہادتِ عظميٰ کے نتائج سے زيادہ استفادہ نہيں کرپاتيں ۔

يہ بات صحيح ہے کہ خداوند متعال اِس دنيا ميں بھي شہدائ کو زندہ رکھتا ہے اور شہيد تاريخ کے صفحات اور افراد

کے اذہان ميں خودبخود زندہ رہتا ہے ليکن خداوند عالم نے اِس واقعہ کيلئے دوسرے واقعات کي مانند عام نوعيت کے جن وسائل و امکانات کو قرار ديا ہے وہ يہي چيز ہے کہ جو ہمارے اختيار ميں ہے اور ہمارے ارادے سےوابستہ ہے اوريہ ہم ہيں کہ جو اپنے صحيح فيصلوں سے شہدائ کے ذکر اور فلسفہ شہادت کا احيائ کرسکتے ہيں ۔

اگر حضرت زينب کبريٰ  اور امام سجاد اپني اسيري Ú©Û’ ايام ميں خواہ کربلا ميں عصرِ عاشورکا وقت ہو يا کوفہ Ùˆ شام Ú©ÙŠ راہوں Ú©ÙŠ اسيري ہو يا پھر شام اور اُس Ú©Û’ بعد کربلا Ú©ÙŠ زيارت اور مدينہ روانگي اور اپني حيات Ú©Û’ آخري لمحات تک کا زمانہ ہو، مقابلہ نہ کرتے اور اپنے بيانات اور خطبات Ú©Û’ ذريعہ باطل Ú©Û’ چہرے پر Ù¾Ú‘ÙŠ نقاب نہ الٹتے اورکربلا Ú©Û’ حقيقي فلسفے، امام حسين Ú©Û’ ہدف اور دشمن Ú©Û’ ظلم Ùˆ ستم Ú©Ùˆ بيان نہ کرتے تو واقعہ کربلا آج زندہ نہ ہوتا Û”

حضرت امام جعفر صادق نے يہ کيوں فرمايا کہ ’’اگر کوئي واقعہ کربلا کے بارے ميں ايک شعر کہے اور اُس شعر کے ذريعہ لوگوں کو رُلائے تو خداوند عالم اُس پرجنت کو واجب کرديتا ہے ‘‘! وجہ يہ ہے کہ دشمن کي تمام پروپيگنڈا مشينري واقعہ کربلا بالعموم اہل بيت کو مٹانے اور اُنہيں تاريکي ميں رکھنے کيلئے کمر بستہ ہوگئي تھي تاکہ لوگ اِس واقعہ کي رنگ و بو بھي نہ پاسکيں؛يہ تھا اُن کاپروپيگنڈا ۔ اُس زمانے ميں بھي آج کي طرح ظالم و ستمگر طاقتيںاپنے جھوٹے، مغرضانہ اور شيطنت آميز پروپيگنڈے سے زيادہ سے زيادہ استفادہ کرتي تھیں ۔ ايسي فضا اور ماحول ميں کيا ممکن تھا کہ واقعہ کربلا جو اپني تمام تر عظمت و سربلندي کے ساتھ دنيا ئے اسلام کے ايک گوشہ ميں رونما ہوا تھا اِس عظمت کے ساتھ باقي رہتا؟ اگر اِن شخصيات کي محنت و جدوجہد اور ايثار و قربا ني نہ ہوتي تو يہ واقعہ تاريخ کے اوراق ميں دفن ہوجاتا ۔

جس چيز نے اِس ذکر کو زندہ رکھا ہے وہ سيد الشہدا کے حقيقي وارث تھے ۔ جس طرح امام حسيناور اُن کے اصحاب ِ با وفاکا جہاد ااور اُن کے مصائب سخت تھے،اُسي طرح حضرت زينب ، حضرت امام سجاد اوربقيہ افراد کا جہاد اور اسيري کي صعوبتيں اور سختياں برداشت کرنا بھي بہت دشوار و مشکل ترين کام تھا ۔ فرق يہ ہے کہ امام حسين کي شہادت کے بعد ميدانِ جنگ ميں آنے والوں نے تلواروں اور نيزوں سے جنگ نہيں کي بلکہ تبليغ اور (خطبات،اشعار، احساسات اور گريہ و اشک جيسے)ثقافتي ہتھياروں سے دشمن کو زمين بوس کرديا ۔ ہميں اِس اہم نکتہ کي طرف توجہ کرني چاہيے ۔

درسِ اربعين

اربعين (چہلم) کا درس يہ ہے کہ دشمن کے پروپيگنڈے کے طوفان کي تند وتيز ہواوں ميں ذکرِ شہادت اور اُس کي حقيقت و فلسفے کو زندہ رکھنا چاہيے ۔ آپ توجہ کيجئے کہ انقلاب اسلامي کي ابتدا ئ سے لے کر آج تک انقلاب،امام خميني۲،اسلام اورہماري قوم کے خلاف دشمن کا پروپيگنڈا کتنا زيادہ تھا، اگر دشمن کے اِس پروپيگنڈے کے جواب ميں اہل حق کي تبليغ نہ ہوتي اور نہ ہو تو دشمن پروپيگنڈے کے ميدان ميں غالب آجائے گا چنانچہ پروپيگنڈے اور تبليغ کا ميدان بہت عظيم، اہميت والا اور خطرناک ميدان ہے ۔

يزيد کے ظالم و جابر نظام حکومت نے اپنے پروپيگنڈے سے امام حسين کو شکست ديني چاہي اور وہ يہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ حسين ابن علي وہ شخص ہے کہ جس نے عدل و انصاف کے نظام، اسلامي حکومت کے خلاف اور دنياوي مقاصد کے حصول کيلئے قيام کيا ہے!! بعض افراد نے اِس جھوٹے پروپيگنڈے کو من و عن قبول بھي کرليا اور جب سيد الشہدا کو نہايت بے رحمي و بے دردي سے يزيدي جلادوں نے صحرائے کربلا ميں شہيد کيا تو آپ کي شہادت کو ايک عظيم غلبہ اور فتح قرار دينے لگے! ليکن نظام امامت کي اِس ’’تبليغ حق‘‘ نے يزيدي حکومت کے مضبوطي سے بُنے ہوئے اِس جال کا ايک ايک تار کھول ڈالا اور اُس کي بساط الٹ دي اور حق اِسي طرح ہوتاہے ۔ ١

١ حديث ولايت، جلد ٢ صفحہ ١٤٣۔ ١٤١



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59