امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



حسيني ثبات قدم ا ور استقامت

سيد الشہدا کے ثبات قدم اور اُن کي استقامت کے بارے ميں يہ کہا جاسکتا ہے کہ اُنہوں نے اِس بات کا قطعي فيصلہ کرليا تھا کہ وہ يزيد اور اُس کي ظالم و جابر حکومت کے سامنے ہرگز تسليم نہيں ہوں گے ۔ امام حسين کا مقابلہ يہيںسے شروع ہوتا ہے کہ ايک فاسق و فاجر نظام حکومت کے مقابل اپنے سر کو ہرگز خم نہ کيا جائے کہ

جس نے دين کو بالکل تبديل کرديا تھا ۔ امام ٴنے مدينے سے اِسي نيت و قصد کے ساتھ حرکت کي تھي؛ مکہ پہنچنے کے بعد جب آپ نے اِس بات کا احساس کيا کہ کچھ يار و مددگار آپ کے ساتھ شامل ہوگئے ہيں تو آپ ٴنے اپنے اِس قصد و نيت کے ساتھ ساتھ قيام کو بھي ہمراہ کرليا ۔ اگر آپ ٴ کويہ يارو اصحاب نہ بھي ملتے تب بھي آپ ٴکي تحريک کا اصل مقصد ايک ايسي حکومت کے خلاف اعتراض کرنا اور اُس سے مقابلہ تھا کہ جو امام ٴکے نزديک

اسلامي اصولوں کے مطابق ناقابل تحمل اور ناقابل قبول تھي۔ سيد الشہدا کا سب سے پہلا اقدام يہ تھا کہ آپ اِس حکومت کے سامنے کھڑے ہوگئے؛ اِس قيام کے بعد امام حسين ايک کے بعد دوسري مشکلات کا سامنا

کرنے لگے،چناچہ آپ ٴ کو ناگزير طور پر مکہ سے نکلنا پڑا اور اِس کے بعد کربلا ميں آپ کا محاصرہ کرليا گيا ۔ اِس

کے بعد کربلا کا وہ دلخراش واقعہ پيس آيا کہ جس ميں امام حسين کو مصائب نے سب سے زيادہ نشانہ بنايا ۔

 

شرعي عذر، انسان کي راہ کي رکاوٹ

اُن من جملہ چيزوں ميں سے جو انسان کو عظيم اہداف تک رسائي سے روک ديتے ہيں، ايک شرعي عذر

----------

١ کمانڈروں اور مقاومت فورس کے ماتمي دستوں سے خطاب ٢٢/ ٤/ ١٣٧١



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next