امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



بہت سے افراد يہ کہتے ہيں کہ امام حسين ، يزيد کي فاسد حکومت کو ختم کرکے خود ايک حکومت تشکيل دينے کے خواہش مند تھے؛ يہ ہے اِن افراد کي نگاہوں ميں سيد الشہدا کے قيام کا مقصد۔ يہ بات تقريباً آدھي درست ہے ، ميں يہ نہيں کہتا کہ يہ غلط ہے ۔ اگر اس نظريے کا مقصد يہ ہے کہ امام حسين نے تشکيل حکومت کيلئے اس طرح قيام کيا کہ اگر وہ ديکھتے کہ انسان اپنے نتيجے تک نہيں پہنچ سکتا تو وہ يہ کہتے کہ ہم حکومت تو نہيں بنا سکے لہٰذا اِس تحريک کو يہيں ختم کرکے واپس لوٹ جاتے ہيں ! يہ بات غلط ہے ۔

جي ہاں جو بھي حکومت بنانے کي غرض سے قدم اٹھاتا اور اُس کے ليے تحريک چلاتا ہے تو وہاں تک کوشش کرتا ہے کہ جہاں تک يہ کام ممکن اور شدني ہے ليکن جيسے ہي اُسے اُس کام کے نہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے يا وہ عقلي طورپر مقصد تک جانے والي راہوں کو مسدود پاتا ہے تو اُس کي ذمہ داري يہ ہے کہ وہ لوٹ آئے ۔ اگر تشکيل حکومت ہي انسان کا مقصد ہے تو وہاں تک کوشش کرنا صحيح ہے کہ جہاں تک پيش رفت کرنا ممکن ہو اور جہاں اقدام کرنے کا امکان ختم ہوجائے تو اُسے لوٹ جانا چاہيے ۔ اگر کوئي يہ کہے کہ اپنے قيام سے سيد الشہدا کا مقصد امير المومنين کي مانند ايک حکومت حق کي تشکيل تھي يہ بات درست نہيں ہے، اِس لئے کہ امام حسين کي پوري تحريک اس نظريے کي تائيد نہيں کرتي ۔

اِس کے مقابل کچھ افراد کا نظريہ ہے کہ نہيں جناب، حکومت بنانے کا تو سوال ہي پيدا نہيں ہوتا؛ حضرت جانتے تھے کہ وہ حکومت نہيں بناسکتے ہيں، وہ تو کربلا اس ليے آئے تھے کہ قتل ہوں اور درجہ شہادت پر فائز ہوں! ايک زمانے ميں بہت زيادہ افراد اِس نظريے کے حامي اور طرفدارتھے اور بہت سے شعرائ اِس نظريے کو اپني خوبصورت شاعري کے قالب ميں ڈھال کر عوام کيلئے بيان کرتے تھے ۔ بعد ميں مَيں نے ديکھا کہ بعض بڑے علمائ نے بھي اِسي بات کو بيان کيا؛ يعني حضرت امام حسين نے صرف اس ليے قيام کيا تھا کہ وہ شہيد ہوجائيں ليکن درحقيقت يہ کوئي نئي بات اور نيا نظريہ نہيں ہے ۔ لہٰذا اِن افراد کے نظريے کے مطابق سالار شہيداں نے يہ کہا کہ’’ ہمارے زندہ رہنے سے تو کوئي کام نہيں ہوسکتا پس ہم اپني شہادت سے کوئي کام انجام ديتے ہيں‘‘!

 

ب:کيا امام حسين نے شہادت کيلئے قيام فرماياتھا؟

قرآن واہل بيت کي تعليمات ميں ان باتوں کي کوئي سند و اعتبار نہيں ہے کہ ’’جاو اور بغير کسي وجہ کے شہيد ہوجاؤ‘‘؛ اسلامي تعليمات ميں ايسي کوئي چيز وجود نہيں رکھتي!

ہم شريعت مقدس اور قرآن وروايات ميں جس شہادت کا ذکر پاتے ہيں اُس کا معني يہ ہے کہ انسان ايک واجب يا راجح (عقلي) مقدس ہدف کے حصول کي راہ ميں جدوجہد کرے اور اُس راہ ميں قتل کيا جائے؛ يہ ہے صحيح اسلامي شہادت۔ ليکن اگر انسان صرف اس ليے قدم اٹھائے کہ ميں جاوں اور بغير کسي وجہ کے قتل ہوجاوں يا شاعرانہ اور اديبانہ تعبير کے مطابق ميرے خون کا سيلاب ظالم کو بہاکر لے جائے اور وہ نيست و نابود ہوجائے! يہ تمام چيزيں ، واقعہ کربلا کے عظيم واقعہ سے کسي بھي طرح ميل نہيں کھاتيں ۔ صحيح ہے کہ يہ ايک حقيقت ہے کہ امام حسين کي شہادت نے يہ کام انجام ديا ليکن سيد الشہدا کا مقصد يہ نہيں تھا ۔

المختصر يہ کہ ہم يہ نہيں کہہ سکتے کہ سيد الشہدا نے تشکيل حکومت کيلئے قيام کيا تھا اور اُن کا مقصد حکومت بنانا تھا اور نہ ہي ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ سيد الشہدا نے شہيد ہونے کيلئے قيام کيا تھا بلکہ آپ کا ہدف کوئي اور چيز تھي کہ جسے آپ کي خدمت ميں بيان کرنا چا ہتا ہوں ۔

 

حکومت و شہادت دونتيجے تھے نہ کہ ہدف!

ميں تحقيق و مطالعہ سے اِس نتيجے پر پہنچا ہوں کہ وہ لوگ جو اس بات کے معتقد ہيں کہ امام حسين کا ہدف حکومت يا شہادت تھا، اُنہوں نے ہدف اور نتيجے کو آپس ميں ملا ديا ہے، اِن ميں سے کوئي ايک بھي سيد الشہدا کا ہدف نہيں تھا بلکہ ايک دوسري ہي چيز سيد الشہدا کا ہدف تھي۔ پس فرق يہ ہے کہ اُس ہدف کے حصول کيلئے ايک ايسي تحريک و جدوجہد کي ضرورت تھي کہ جس کا اِن دو ميں سے ايک نتيجہ نکلنا تھا، يا حکومت ملتي يا شہادت۔ البتہ يہ بات ضروري ہے کہ سيد الشہدا دونوں نتيجوں کيلئے پہلے سے آمادہ اور تيار تھے؛ اُنہوں نے حکومت کي تشکيل اور شہادت کيلئے مقدمات کو تيار کرليا تھا اور دونوں کيلئے پہلے سے خود کو آمادہ کيا ہوا تھا؛ دونوں ميں سے جو بھي نتيجہ سامنے آتا وہ اُن کي منصوبہ بندي کے مطابق صحيح ہوتا ليکن حکومت و شہادت ميں سے کوئي ايک بھي اُن کا ہدف نہيں تھا بلکہ ايک تيسري ہي چيز اُن کا ہدف تھي۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next