امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



يہ ہے اُس معاشرے کا بنيادي اور اصلي درد و تکليف ؛ ممکن ہے ہم بھي اِس درد و بيماري ميں مبتلا ہوجائيں ۔

اگر ہدف کے حصول کي لگن و تڑپ اسلامي معاشرے سے ختم ہوجائے يا ضعيف ہوجائے ،اگر ہم ميں سے ہر شخص کي فکر يہ ہو کہ وہ اپنا اُلّو سيدھا کرے، ہم دنيا کي دوڑ ميں دوسروں سے کہيں عقب نہ رہ جائيں، دوسروں نے اپني جيبوں کو بھرا ہے اور ہم بھي دونوں ہاتھ پھيلا پھيلا کر جمع کريں گے جب معاشرے کے افراداپنے انفرادي مفادات کو اجتماعي مفادات پر ترجيح ديں توظاہر سي بات ہے کہ اِس قسم کي تاويلات سے معاشرہ اجتماعي سطح پر اِس

قسم کي بلاوں سے دُچار ہوگا ۔

------------

١ سورئہ مريم / ٥٩

اسلامي نظام، عميق ايمانوں ، بلند ہمتوں ، آہني عزموں ، بلند و بالا اہداف کي رہائي کيلئے با مقصد شِعَاروں کو بيان کرنے اور اُنہيں اہميت دينے اور زندہ رکھنے سے وجود ميں آتا ہے، اِنہي امور کے ذريعہ اُس کي حفاظت کي جاتي ہے اوروہ اِسي راہ کے ذريعہ ترقي و پيش رفت کرتا ہے ۔ اِن شِعَاروں کو کم رنگ کرنے، اُنہيں کم اہميت شمار کرنے، انقلاب و اسلام کے اصول و قوانين سے بے اعتنائي برتنے اور تمام امور اور چيزوں کو مادّيت کي نگاہ سے ديکھنے اور سمجھنے کے نتيجے ميں معلوم ہے کہ معاشرہ ايسے مقام پر جا پہنچے گا کہ اُس کي اجتماعي صورتحال يہي ہوگي۔

اوائلِ اسلام ميں بھي معاشرہ اِسي حالت سے دوچار تھا ۔

 

جب خلافت کے معيار و ميزان تبديل ہوجائيں!

ايک وہ زمانہ تھا کہ جب مسلمانوں کيلئے تمام شعبہ ہائے زندگي ميں اسلام کي پيش رفت، ہر قيمت پر رضائے الٰہي کا حصول، اسلامي تعليمات کا فروغ اور قرآن و قرآني تعليمات سے آشنائي ضروري و لازمي تھي۔ حکومتي نظام اور تمام محکمے و ادارے ، زھد و تقويٰ کے حصول ميں کو شاںاور دنيا و مافيھا اور خواہشات نفساني سے بے اعتنائي برتنے کے سائے ميں پيش پيش تھے ۔ اِنہي حالات ميں علي ابن ابيطالب جيسي ہستي خليفہ بنتي ہے اور حسين ابن علي ايک ممتاز شخصيت کي صورت ميں سامنے آتے ہیں ۔ اِس ليے کہ اِن ہستيوں ميں دوسروں سے زيادہ ہدايت و راہنمائي اور امامت و خلافت کے معيارات وجود رکھتے تھے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next