امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



بھي برائي ہي کا مصداق ہے ، اخلاقي انحراف و بگاڑبھي برائيوں کي ہي ايک قسم ہے،مالي خردبُرد اور اقتصادي ميدان

ميں انجام دياجا نے والا کرپشن بھي اجتماعي برائيوں سے ہي تعلق رکھتا ہے، آپس ميں دست و گريباں ہونا اور ايک

-----------

١ و ٢ حوالہ سابق

دوسرے سے دشمني رکھنا بھي برائي کي ہي ايک نوع اور قسم ہے، دشمنانِ دين کي طرف ميل و رغبت اور جھکاو بھي

برائيوں کا ہي حصہ ہے اور دين Ú©ÙŠ مخالف چيزوں سے اپنے شوق Ùˆ رغبت Ú©Ùˆ ظاہر کرنا بھي گناہ ہے Ø›(ايک اسلامي معاشرے ميں يہ)تمام چيزيں دين Ú©ÙŠ آڑاور اُس Ú©Û’ سائے ميں ہي وجود ميں آتي ہيں(اور پيغمبر اکرم  Ú©Û’ بعديہ چيزيںديني حکومت Ú©ÙŠ آڑميں وجود ميں آئيں ) Û” سيد الشہدا اِس Ú©Û’ بعد فرماتے ہيں کہ ’’وَيَامَنَ المَظلُومُونَ مِن عِبَادِکَ‘‘ Ù¡ ،تا’’کہ تيرے بندے امن Ùˆ سکون پائيں‘‘؛ يہاں مظلوم سے امام Ù´ Ú©ÙŠ مراد، معاشرے Ú©Û’ مظلوم افراد ہيں، نہ کہ ستمگراور ظلم کرنے والے؛نہ ظلم Ú©Û’ مدّاح اورنہ اُسے سرانے والے

اورنہ ہيظالموں کاساتھ دينے والے! ’’ مَظلُومُونَ‘‘ سے مراد وہ لوگ ہيں کہ جو بے يارو مددگار ہيں اور جنہيں اپني نجات کي کو ئي راہ سجھائي نہيں ديتي۔ ہدف يہ ہے کہ معاشرے کے مستضعف اور کمزور افراد خواہ وہ کسي بھي طبقے سے تعلق رکھنے والے کيوں نہ ہوں، امن و سکون کا سانس ليں،اُن کي حيثيت و آبروکي حفاظت اوراُن کيلئے عدل و انصاف کي فراہمي کا سامان ہواور وہ اقتصادي طور پر امن و سکون کا سانس ليں کہ آج ہماري دنيااِن ہي چيزوں کي بہت تشنہ ہے؛ چنا نچہ آپ غو رکيجئے کہ امام حسين نے کس طرح اُس زمانے ميں طاغوتي حکومت کے بالکل نقطہ مقابل ميں موجود چيز پر انگلي رکھي۔ آج آپ بين الاقوامي سطح پر نگاہ ڈاليے تو آپ يہي صورتحال سامنے اپنے سامنے موجود پائيں کہ دين کے پرچم کواُلٹا اور اسلامي تعليمات کو غلط انداز سے پيش کيا جارہا ہے ، عالم استکبار اور لٹيرے خدا کے مظلوم بندوں پر پہلے سے زيادہ ظلم کررہے ہيں اوراِن ظالموں نے اپنے پنجوں کو مظلوموں کے جسموں ميں گاڑا ہوا ہے ۔

 

احکام الٰہي کا نفاذ

اِسي خطبے کے آخر ميں سيد الشہدا فرماتے ہيں کہ ’’و يُعمَل وَبِفَرَائِضِکَ اَحکَامِکَ و



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next