امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



آج امام حسين گذشتہ پانچ يا دس صديوں سے زيادہ دنيا ميں پہچانے جاتے ہيں ۔ آج حالات يہ ہيں کہ دنيا کے مفکرين، روشن فکر شخصيات اور بے غرض افراد جب تاريخ کا مطالعہ کرتے ہيں اور واقعہ کربلا کو ديکھتے ہيں تو اپنے دل ميں خضوع کا احساس کرتے ہيں ۔ وہ تمام افراد جو اسلام سے کوئي سروکار نہيں رکھتے ليکن آزادي، عدالت، عزت، سربلندي اور اعليٰ انساني اقدار جيسے بلند پايہ مفاہيم کو سمجھتے ہيں اور اِس زاويے سے کربلا کو ديکھتے ہيں تو آزادي و آزادي خواہي، عدل و انصاف کے قيام، برائيوں ، جہالت اور انساني پستي سے مقابلہ کرنے ميںسيد الشہدا اُن کے امام و رہبر ہيں ۔

 

جہالت و پستي، انسان کے دو بڑے دشمن

آج انسان نے دنيا ميں جہاں کہيں بھي چوٹ کھائي ہے خواہ وہ سياسي لحاظ سے ہو يا فوجي و اقتصادي لحاظ سے، اگر آپ اُس کي جڑوں تک پہنچيں تو آپ کو يا جہالت نظر آئے گي يا پستي ۔يعني اِس انساني معاشرے کے افراد يا آگاہ وواقف نہيںہيں اوراُنہيں جس چيز کي لازمي معرفت رکھني چاہيے وہ لازمي معرفت و شناخت نہيں رکھتے ہيں يا يہ کہ معرفت کے حامل ہيں ليکن اُس کي اہميت اور قدر وقيمت کے قائل نہيں ہيں،انہوں نے اُسے کوڑيوں کے دام بيچ ديا ہے اور اُس کے بجائے ذلت وپستي کو خريد ليا ہے!

حضرت امام سجاد اور حضرت امير المومنين سے نقل کيا گيا ہے کہ آپ نے فرمايا کہ ’’لَيسَ لِاَنفُسِکُم ثَمَن? اِلَّا الجَنَّۃَ فَلَا تَبِيعُوھَا بِغَيرِھَا‘‘؛’’تمہاري جانوں کي جنت کے علاوہ کوئي اور قيمت نہيں ہے لہٰذا اپني جانوں کو جنت کے علاوہ کسي اور چيز کے عوض نہ بيچو‘‘۔ يعني اے انسان! اگر يہ طے ہو کہ تمہاري ہستي و ذات اور تشخص و وجود کو فروخت کيا جائے تو اِن کي صرف ايک ہي قيمت ہے اور وہ ہے خدا کي جنت، اگر تم نے اپنے نفس کو جنت سے کم کسي اور چيز کے عوض بيچا تو جان لو کہ تم کو اِس معاملے ميں غبن ہوا ہے! اگر پوري دنيا کوبھي اِس شرط کے ساتھ تمہيںديں کہ ذلت وپستي کو قبول کر لو توبھي يہ سودا جائز نہيں ہے ۔

وہ تمام افراد جو دنيا کے گوشے کناروں ميں زر وزمين اور صاحبانِ ظلم و ستم کے ظلم کے سامنے تسليم ہوگئے ہيں اوراُنہوں نے اِس ذلت و پستي کو قبول کر ليا ہے، خواہ عالم ہوں يا سياست دان، سياسي کارکن ہوں يا اجتماعي امور سے وابستہ افراد يا روشن فکر اشخاص، تو يہ سب اِس وجہ سے ہے کہ اُنہوں نے اپني قدر وقيمت کو نہيں پہچانا اور خود کو کوڑيوں کے دام فروخت کرديا ہے ؛ہاں سچ تو يہي ہے کہ دنيا کے بہت سے سياستدانوں نے خود کو بيچ ڈالا ہے ۔ عزت صرف يہ نہيں ہے کہ انسان صرف سلطنت کیلئے بادشاہت يا رياست کي کرسي پر بيٹھے؛ کبھي ايسا بھي ہوتا ہے کہ ايک انسان تخت حکومت پر بيٹھ کر ہزاروں افرادسے غروروتکبر سے پيش آتا ہے اوراُن پر ظلم کرتاہے ليکن اُسي حالت ميں ايک بڑي طاقت اور سياسي مرکز کا اسير و ذليل بھي ہوتا ہے اور خود اُس کي نفساني خواہشات اُسے اپنا قيدي بنائے ہوئے ہوتي ہيں! آج کي دنيا کے سياسي اسير و قيدي کسي نہ کسي بڑي طاقت و قدرت اور دنيا کے بڑے سياسي مراکز کے اسير و قيدي ہيں!

 

اسلامي انقلاب سے قبل ايران کي ذلت و پستي!

اگر آپ آج ہمارے اِس عظيم ملک پر نگاہ ڈاليں تو آپ مشاہدہ کريں گے کہ اِس ملک کے نوجوانوں کے چہرے اپنے ملک کے استقلال و خودمختاري اور عزت کے احساس سے شادمان ہيں ۔ کوئي بھي اِ س بات کا دعويٰ نہيں کرسکتا ہے کہ اِس ملک کا سياسي نظام، دنيا کي کسي ايک سياسي قدرت کا ايک چھوٹا سا حکم بھي قبول کرتا ہے! پوري دنيا اِس بات کو اچھي طرح قبول کرتي ہے کہ اِس عظيم اوربا عزت ملک ميں اسلامي انقلاب سے قبل ايسي حکومت برسراقتدار تھي کہ جس کے افراد فرعونيت اور تکبر کے مرض ميں مبتلا تھے، اُنہوں نے اپنے ليے ايک اعليٰ قسم کے جاہ وجلال اور رعب و دبدبے کي دنيا بنائي ہوئي تھي اور لوگ اُن کي تعظيم کرتے ہوئے اُن کے سامنے جھکتے تھے ليکن يہي افراد دوسروں کے اسير و اُن کے سامنے ذليل و پست تھے!اِسي تہران ميں جب بھي امريکي سفير چاہتا تو وقت ليے بغير شاہ سے ملاقات کرتا، ہربات کو اُ س پر تھونپتا اور اُس سے اپني بات کي تکميل چاہتا اور اگر وہ انجام نہ ديتا تو اُسے ہٹا ديتا (ليکن حقيقت تو يہ ہے کہ شاہ ايران ميں اتني جرآت ہي نہيں تھي کہ وہ امريکي حکومت يا امريکي سفير کے مرضي کے خلاف کوئي چھوٹا سا عمل انجام دے!) اِن افراد کا ظاہر بہت جاہ و جلال والا تھا ليکن صرف عوام اور کمزور افراد کے سامنے ۔ امام حسين اِسي پستي و ذلت کو انسانوں سے دور کرنا چاہتے تھے ۔

 

اخلاق پيغمبر

پيغمبر اکرم  Ú©ÙŠ حالت يہ تھي کہ ’’کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ يَاکُلُ Ø¢ÙŽÚ©Ù„ÙŽ العَبدِ ÙˆÙŽ يَجلِسُ جُلُوسَ العَبدِ‘‘ ،’’ وہ غلام Ùˆ عبد Ú©ÙŠ مانند غذا تناول فرماتے اور بندوں Ú©Û’ مثل بيٹھتے تھے ‘‘۔ خود پيغمبر اکرم  Ú©Û’ بہت سے عزيز Ùˆ اقارب امير ترين افراد تھے ليکن لوگوں سے آپ Ú©ÙŠ رفتار Ùˆ عمل بہت ہي متواضعانہ تھا، اُن کا احترام فر ماتے اور کبھي فخر Ùˆ مباہات سے پيش نہيں آتے تھے ليکن آپ  Ú©ÙŠ ايک نگاہ Ùˆ اشارے سے اُس زمانے Ú©Û’ بڑے بڑے شہنشاہوں Ú©Û’ بدنوں ميں کپکپي طاري ہوجاتي تھي؛يہ ہے حقيقي عزت!

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next