امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



وَالقَآئِمُ بِالقِسطِ الدَّآئِنُ بِدِينِ الحَقَّ وَالحَابِسُ نَفسِہ عَلٰے ذَالِکَ لِلّٰہِ والسَّلَام‘‘١ ، ’’امام فقط

وہي ہے جو صرف کتاب الٰہي کے مطابق حکومت کرے، عدل و انصاف کو قائم کرے، ملک و معاشرے اور قانون

کي حق کي طرف راہنمائي کرے اور صراطِ مستقيم پر ہر طرح سے اپني حفاظت کرے‘‘۔ امام وپيشوا اور اسلامي معاشرے کا سربراہ اور حاکم ، اہل فسق و فجور، خائن، فسادي ، قبيح اعمال کاارتکاب کرنے والا شخص اور خدا سے دوري اختيار کرنے والا فرد نہيں ہوسکتا ہے ۔ اسلامي معاشرے کا حاکم اُسے ہونا چاہيے کہ جو کتاب خدا کے مطابق فيصلہ کرے، کتابِ الٰہي پر عمل پيرا ہو، معاشرے ميں اپني اجتماعي ذمہ داريوں اور فرائض سے کنارہ کشي اختيار نہ کرے؛ نہ يہ کہ ايک کمرے ميں بيٹھ کر تنہائي ميں عبادت خدا بجالائے؛ اسلامي حاکم کو چاہيے کہ معاشرے ميں کتاب خدا کو زندہ کرے، عدل وانصاف کا بول بالا کرے اور ’’حق‘‘ کو معاشرے کا قانون قرار دے نہ کہ نفساني خواہشات اور شخصي رائے کو۔

’’الدَّائِنُ بِدِينِ الحَقِّ ‘‘ يعني اسلامي حاکم کو چاہيے کہ معاشرے کا قانون اور اُس کا راستہ صرف حق کے مطابق متعين کرے اور باطل افکار و نظريات اور شخصي رائے کو ترک کردے ۔ ’’والحَابِسُ نَفسِہِ عَلٰے ذَالِکَ لِلّٰہِ‘‘ اِس جملے کا ظاہري معني يہ ہے کہ خدا کہ راستے ميں جس طرح بھي ہو اپني حفاظت کرے اور شيطاني اور مادّي جلووں اور رنگينيوں کا اسير نہ ہو۔

 

پيغمبر  Ù†Û’ ذمہ داري مشخص کردي ہے

سيد الشہدا جب مکے سے باہر تشريف لے گئے تو راستے ميں آپ نے مختلف مقامات پر مختلف انداز سے گفتگو فرمائي ۔ ’’بيضہ‘‘ نامي منزل پر، کہ جب حُرّ ابن يزيد رياحي کا لشکر آپ کے ساتھ ساتھ تھا، اُترنے کے بعد شايد آپ نے استراحت کرنے سے قبل يا تھوڑي استراحت کے بعد کھڑے ہو کر دشمن کے لشکر سے اِس طرح خطاب فرمايا:’’اَيُّھا النَّاسُ اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ (صَلَّي اللّٰہ عَلَيہ وآلِہ) قَالَ: مَن رَآَيٰ سُلطَاناً جَآئِرًا

-------

١ بحار الانوار جلد ٤٤، صفحہ ٢٣٥

مُستَحِلًّا لِحَرامِ اللّٰہِ نَاکِثًا لِعَھدِ اللّٰہِ ØŒ مُخَالِفًا لِسُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ يَعمَلُ فِي عِبَادِ اللّٰہِ بِالاِثمَ وَالعُدوَانِ ثُمَّ Ù„ÙŽÙ… يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ کَانَ حَقًّا عَلٰے اللّٰہِ اَن يَدخُلَہُ مَدخَلَہُ‘‘ Ù¡ Û” ’’رسول اللہ Ù†Û’ ارشاد فرمايا کہ ’’جو کسي جائر Ùˆ ظالم حاکم Ú©Ùˆ ديکھے جو حرام خدا Ú©Ùˆ حلال جاننے والا، قانون خدا Ú©Ùˆ توڑنے والا، سنت رسول  کا مخالف اور مخلوق خدا ميں گناہ Ùˆ سرکشي سے حکومت کرنے والا ہو تو يہ ديکھنے والا اپنے قول Ùˆ فعل سے اُس Ú©Û’ خلاف حکمت عملي اختيار نہ کرے تو خداوند عالم اِس سکوت Ùˆ جمود اور خاموشي اختيار کرنے والے شخص Ú©Ùˆ اُس ظالم سلطان Ú©Û’ ساتھ عذاب ميں ڈالے گا‘‘۔ يعني اگر کوئي يہ ديکھے کہ معاشرے ميں کوئي حاکم برسر حکومت ہے اور ظلم Ùˆ ستم کررہا ہے ØŒ حرام خدا Ú©Ùˆ حلال قرار دے رہا ہے اور حلال خدا Ú©Ùˆ حرام بنارہا ہے، اُس Ù†Û’ Ø­Ú©Ù… الٰہي Ú©Ùˆ پس پشت ڈال ديا ہے اور دوسرے افراد Ú©Ùˆ بھي عمل نہ کرنے کيلئے مجبور کررہا ہے، لوگوں ميں گناہ اور ظلم Ùˆ دشمني سے حکومت کرے __ اُس زمانے ميں ظالم اور جائر حاکم کا کامل مصداق يزيد تھا__ ’’و Ù„ÙŽÙ… يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ‘‘ ،’’ اپني زبان Ùˆ عمل سے اُس Ú©Û’ خلاف اقدام نہ کرے‘‘۔ ’’ کَانَ حَقًّا عَلٰے اللّٰہِ اَن يَدخُلَہُ مَدخَلَہُ‘‘ ،’’توخداوند عالم روز قيامت سکوت وجمود اختيار کرنے والے بے طرف Ùˆ بے عمل شخص Ú©Ùˆ اُسي ظالم Ú©Û’ ساتھ ايک ہي عذاب ميں ڈالے گا‘‘۔

يہ پيغمبر  کا قول ہے؛ يہ جو ہم Ù†Û’ کہا ہے کہ پيغمبر  Ù†Û’ يہ فرمايا ہے تو يہ اُن Ú©Û’ اقوال کا ايک نمونہ ہے Û” پس حضرت ختمي مرتبت  Ù†Û’ پہلے سے مشخص کرديا تھا کہ اگر اسلامي نظام انحراف کا شکار ہوجائے تو کيا کام کرنا چاہيے Û” امام حسين Ù†Û’ پيغمبر اکرم  Ú©Û’ اِسي قول Ú©Ùˆ اپني تحريک Ú©ÙŠ بنياد قرار ديا Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next