امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



امام حسين کي حيات مبارکہ ميں ايک ايساپہلوموجو د ہے کہ جس نے ايک بہت ہي بلند وبالاپہاڑ کي مانند اطراف کي ديگر چيزوں کو اپنے دامن ميں ليا ہوا ہے اور وہ’’ کربلا‘‘ ہے ۔ سيد الشہدا کي زندگي ميں اتنے اہم ترين واقعات ، مطالب ، احاديث ، خطبات اور پوري ايک تاريخ موجود ہے کہ اگر کربلا کا واقعہ رونمانہ بھي ہوتا توبھي آپ کي زندگي بقيہ دوسرے ہر معصوم ٴ کي مانند اسلامي احکامات اورروايات و احاديث کا منبع ہوتي ليکن واقعہ کربلا اتنا اہم ہے کہ آپ امام ٴکي زندگي کے شايد ہي کسي اور پہلو يا واقعہ کو ذہن ميں لائيں! واقعہ کربلا اتنا اہم ہے کہ آج روز ولادت باسعادت امام حسين کي زيارت يا دعا ميں اُن کے بارے ميں يوں نقل کيا گيا ہے کہ ’’بَکَتہُ

السَمَآئُ وَمَن عَليھَا‘‘ يا ’’مَن فِيھَا‘‘ اور ’’ وَالاَرضُ وَمَن عَلَيھَا وَ لَمَّا يَطَآ لَا بَتَيھَا‘‘ ١ ، ’’امام حسين

----------

ا١ عمال سوم شعبان ، مفاتيح الجنان

پر آسمان اور اہل آسمان و زمين اور اُس پر رہنے والوں نے گريہ کيا‘‘۔ سيد الشہدا نے ابھي اِس جہان ميں قدم نہيں رکھے ہيں ليکن زمين و آسمان نے اُن پر گريہ کيا، يہ واقعہ اتني زيادہ اہميت کا حامل ہے! يعني تاريخ کے بے مثل و نظير واقعہ کربلا اور شہادت ِعظميٰ کا درس اکسٹھ ہجري کے روزِ عاشورا سامنے آياليکن يہ وہ واقعہ تھا کہ جس پرصديوں سے زمين و آسمان کي نظريں جمي ہوئي تھيں، آخر يہ کيسا واقعہ تھا کہ جو پہلے سے مقدّر تھا؟ ’’اَلمَدعُوّ لِشَھادَتِہِ قَبلِ استِھلَا لِہِ وَ وِ لَادَتِہِ‘‘ ، ١ ’’قبل اِس کے کہ حسين ابن علي دنيا ميں قدم رکھيں اُنہيںدرجہ شہادت سے منسوب کيا جا تا اور شہيد کے نام سے پکارا جاتا تھا‘‘۔ ايسا معلوم ہوتا ہے کہ يہاں ايک ايسا راز پوشيدہ ہے کہ جو ہمارے ليے ايک عظيم درس کي حيثيت رکھتا ہے ۔

حضرت امام حسين کي شہادت سے متعلق بہت زيادہ گفتگو کي گئي ہے، اچھي بھي اور صحيح بھي اور ہر ايک نے اپنے فہم و ادراک کے مطابق اِس واقعہ کو سمجھا ہے ۔ بعض نے اُسے حکومت کے حصول کے ہدف تک محدود کيا ہے، بعض نے اُسے ديگر مختلف مسائل تک بہت چھوٹا اور کم اہميت والا بنا کر پيش کيا ہے جبکہ بعض ايسے افراد ہيں کہ جنہوں نے واقعہ کربلا کے عظيم پہلووں کو پہچانا، اُس پر گفتگو کي اور قلم اٹھايا کہ اِن ميں سے ميں کسي کو بھي بيان نہيں کرنا چاہتا؛وہ مطلب کے جسے بيان کرناميرے مدّ نظر ہے، يہ ہے کہ زمانہ جاہليت ميں ظہور کرنے

والے اِس نئے مظہر ’’اسلام‘‘ کو اُس کے ظہور سے قبل يا ظہور کے آغاز سے لاحق خطرات کوپروردگار عالم کي طرف سے پہلے سے ہي بيان کرديا گيا تھا اور صرف يہي نہيں بلکہ اُن خطرات سے مقابلے کے وسائل کو بھي اسلام ميںمدنظررکھاگياتھا ۔بالکل ايک صحيح وسالم بدن کي مانند کہ جس ميں خداوند عالم نے اپنے دفاع کي قدرت اُس کے اندر رکھي ہے يا مثلاً ايک مشين کي مانند کہ جس کے موجد يا انجينئر نے اُس کي اصلاح کا وسيلہ اُس کے ساتھ رکھا ہے ۔

 

دو قسم کے خطرات اور اُن سے مقابلے کي راہيں

اسلام اپنے ظہور سے ہي مختلف قسم کے خطرات کا سامنا کررہا ہے اور اُسے اِن خطرات کا مقابلہ کرنے



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next