امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



 

وظيفے کي ادائيگي ہميشہ خطرے کے ساتھ ہے!

اب امام حسين انحراف و بدعت کے طوفان کے سامنے کھڑے ہيں پس انہيں اپنے وظيفے پر عمل کرنا چاہیے؛ حالات بھي مناسب ہيںلہٰذا اب کسي عذر کي گنجائش نہيںہے ۔ يہي وجہ ہے کہ عبداللہ ابن جعفر ، محمد ابن حنفيہ۱ اور عبداللہ ابن عباس ۱ جيسي خاص، دين شناس ، عارف ، عالم، فہم وادراک رکھنے والي شخصيات نے امام حسين سے کہا کہ’’ اے مولا! اِس راہ ميں خطرات ہيں، آپ نہ جائيے ۔‘‘ يعني وہ يہ کہنا چاہتے تھے کہ جب وظيفے کي انجام دہي ميں خطرات ہوں تو وظيفے کي ادائيگي واجب نہيں ہوتي۔ يہ لوگ اِس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ يہ وظيفہ کوئي ايسا وظيفہ نہيں ہے کہ جو خطرات کي موجودگي ميں ساقط ہوجائے گا! ١

اِس وظيفے کي ادائيگي ہميشہ خطرات کے درميان گھري ہوئي ہے ۔ کيا يہ بات ممکن ہے کہ انسان ايک بہت بڑے اقتدار اور ايک انتہائي مضبوط قسم کے نظام کے خلاف قيام کرے اور اُسے کسي قسم کے خطرات کا سامنا نہ کرنا پڑے؟ اِس واجب پر عمل پيرا ہونے کا مطلب يہ ہے کہ انسان خطرات کو دعوت دے رہا ہے ۔ يہ وہي واجب ہے کہ جسے حضرت امام خميني۲ نے انجام ديا؛ اِن کو بھي يہي کہا جاتا تھا کہ آغا! آپ تو شاہ ايران سے ٹکر لے رہے ہيں،

--------

١ جب يہ لوگ دين شناس اور صاحب فہم و ادرک تھے تو اتني سي بات کيوں نہيں سمجھ سکے جو امام حسين نے سمجھي؟! جواب يہ ہے کہ صحيح ہے کہ يہ لوگ دين شناس تھے مگر چونکہ ايسے حالات کبھي پيش نہيں آئے تھے لہٰذا اُن کے ذہن ميں وہ بات نہيں آئي کہ جو امام حسين کے ذہن ميں آئي۔(مترجم)

 

آپ خطرات ميں گھر جائيں گے ۔کيا امام خميني۲ نہيں جانتے تھے کہ اِس راہ ميں خطرات ہيں؟ کيا امام خميني۲ اس بات سے بے خبر تھے کہ شاہ ايران کي خفيہ ايجنسي جب کسي کو گرفتار کرتي ہے تو اُسے شکنجہ و اذيت ديتي ہے ، اُسے قتل کرتي ہے ، اُس گرفتار ہونے والے انسان کے دوستوں کو موت کے گھاٹ اتار ديتي ہے اور اُنہيں جِلا وطن کرديتي ہے؟! کيا امام خميني يہ سب نہيں جانتے تھے؟!

وہ کام جو امام حسين کے زمانے ميں انجام پايا، اُس کي ايک چھوٹي سي مثال ہمارے زمانے ميں امام خميني کے ذريعے سے سامنے آئي۔ فرق يہ ہے کہ اُس قيام کا نتيجہ شہادت کي صورت ميں سامنے آيا اور امام خميني۲ کے جہاد و قيام کا نتيجہ حکومت کي صورت ميں نکلا؛ يہ وہي کام ہے اور اس ميں کوئي فرق نہيں ہے ۔ امام حسين اور امام خميني کا ہدف، ايک ہي تھا ۔ يہي مطلب، امام حسين کي تعليمات کي اساس و جان ہے اور امام حسين کي تعليمات ، شيعہ مذہب کي تعليمات کا ايک بڑا حصہ ہيں؛ سيد الشہدا کي تعليمات مضبوط و محکم بنياد ہیں اوراسلام کي بنيادوں سے تعلق رکھتي ہيں ۔

 

اسلامي معاشرے کو صحيح راہ پر لوٹانا، ہدف ہے!

پس ہدف يہ ہے کہ اسلامي معاشرے کو اُس کے صحيح راستے کي طرف لوٹايا جائے ، مگر کون سے زمانے ميں؟ اُس وقت کہ جب اسلام کا راستہ تبديل کرديا گيا ہو اور خاص اورصاحب اثر و نفوذ افراد کي جہالت، ظلم و استبداد اور خيانت، مسلمانوں کو منحرف کردے اورقيام کي شرائط پوري ہوگئي ہوں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next