امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



١ حوالہ سابق

کو چاہيے کہ اِس فريضے کو انجام ديں ۔ اگر وہ اِس واجب کو انجام ديں تو اِس طرح وہ اپني ذمہ داري کو ادا کرسکيں گے اور اسلام کي توسيع اور حفاظت کي زمين ہموار کريں گے ۔ زيادہ سے زيادہ يہي ہوگا کہ ايک دو افراد شکست کھائيں گے ۔

جب معاشرتي حالات Ú©ÙŠ تبديلي، قيام اور اصلاحي تحريک کيلئے بار بار اقدامات Ú©ÙŠÛ’ جائيں تو برائياں اور انحرافات يقيني طور پر ختم ہوجائيں Ú¯Û’ Û” امام حسين سے قبل کوئي بھي اِس راستے سے واقف اور اِس کام سے آگاہ نہ تھا، چونکہ زمانہ پيغمبر  ميں يہ کام انجام نہيں ديا گيا تھا، خلفائ Ú©Û’ زمانے ميں بھي ايسے حالات نہيں تھے اور امير المومنين کہ جو معصوم تھے، Ù†Û’ بھي اِس کام Ú©Ùˆ انجام نہيں ديا تھا Û” يہ امام حسين ہي تھے کہ جنہوں Ù†Û’ عملي طور پر پوري تاريخ انسانيت Ú©Ùˆ ايک بہت بڑا درس ديا اور درحقيقت خود اپنے زمانے ميں اور آنے والے زمانوں ميں اسلام کا بيمہ کرديا Û”

 

سيد الشہدا کي ياد اور کربلا کيوں زندہ رہے؟

جہاں بھي حالات اور برائياں و انحرفات ، امام حسين کے زمانے جيسے ہوں، سيد الشہدا وہاں زندہ ہيں اور آپٴ اپنے شيوہ اور عمل سے بتارہے ہيں کہ آپ لوگوں کو کيا کام انجام دينا چاہيے چنانچہ وہي ذمہ داري اور وظيفہ قرار پائے گي۔ لہٰذا سيد الشہدا کي ياد اور ذکر کربلا کو ہميشہ زندہ رہنا چاہيے کيونکہ يہ ذکر کربلا ہي ہے جو اِس عمل کو ہمارے سامنے متجلّي کرتا ہے ۔

افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلامي ممالک ميں کربلا کو جس طرح پہچاننا چاہيے تھے ، پہچانا نہيں گيا ۔ اقوام عالم کو چاہيے کہ اِسے پہچانيں، ہمارے ملک ميں کربلا کي شناخت صحيح طور پر موجود ہے؛ ہماري عوام (کئي صديوں سے) امام حسين کي شناخت رکھتي ہے اور اُن کے قيام سے واقف و آگاہ ہے ۔ معاشرے ميں حسيني روح موجود تھي لہٰذا جب امام خميني۲ نے فرمايا کہ محرم وہ مہينہ ہے کہ’’ جب خون، تلوار پر کامياب ہوگيا ‘‘تو ہماري عوام نے کسي قسم کا تعجب نہيں کيا ۔ حقيقت بھي يہي تھي کہ خون اور مظلوميت، ظلم وشمشير پر غالب آگئي۔

 

وہ درس جو طوطوں نے اسير طوطے کوديا

ميں نے کئي سال قبل البتہ قبل از انقلاب ، کسي محفل ميں ايک مثال بيان کي تھي کہ جسے مولانا رومي نے اپني مثنوي ميں بيان کيا ہے ۔

يہ مَثَل ہے اور اِسے حقائق کوبيان کرنے کيلئے سنايا جاتا ہے ۔ ايک تاجر نے اپنے گھر ميں پنجرے ميں ايک طوطے کو پالا ہوا تھا ۔ ايک مرتبہ جب اُس نے ہندوستان جانے کا ارادہ کيا تو اپنے اہل و عيال سے خدا حافظي کي اور اپنے اِس طوطے سے بھي خدا حافظي کي۔ اُس نے اپنے طوطے سے کہا کہ ’’ميں ہندوستان جارہا ہوں جو تمہارا ملک اور تمہاري سرزمين ہے‘‘۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next