امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



سيد الشہدا نے ايک ايسا کام انجام ديا کہ طاغوتي حکومتوں کے دور ميں کچھ ايسے افراد پيدا ہوئے کہ جواوائلِ اسلام سے زماني فاصلہ رکھنے کے با وجود امام حسن مجتبيٰ کے دور ميں ظلم و ستم کي حکومت سے مقابلے کرنے والے افرادسے زيادہ عزم و ارادے کے مالک تھے ۔ صحيح ہے کہ يہ قيام اور تحريکيں سرکوب کردي گئيں ليکن بہرحال اِن لوگوں نے ظالمانِ وقت کے خلاف قيام کيا ۔ اہل مدينہ کے قيام سے جو ’’واقعہ حرّہ‘‘ کے نام سے معروف ہے ، شروع کيجئے اور بعد کے واقعات اور توابين و مختار کے قيام تک اور وہاں سے بني اميہ اور بني عباس کے زمانے تک مختلف قسم کے قيام مسلسل وجود ميں آتے رہے ، اِن تمام قياموں کا باني کون تھا؟ حسين ابن علي ! اگر سيد الشہدا قيام نہيں فر ماتے تومعاشرے کي سستي و کاہلي اور ذمہ داريوں سے فرارکي عادت، ظلم ستيزي اور ذمہ داري کو قبول کرنے ميں تبديل نہيں ہوتي۔ کيوں کہتے ہيں کہ اُس معاشرے ميں ذمہ داريوں کو قبول کرنے کي حس مرچکي تھي؟ اُس کي دليل يہ ہے کہ امام حسين ، اسلام کي عظيم اور بزرگ ہستيوں کے مرکز ’’شہر مدينہ‘‘ سے مکہ تشريف لے گئے؛ ’’ابن عباس۱ ‘‘ ، ’’پسر زبير۱ ‘‘،’’ ابن عمر ۱ ‘‘ اور صدر اسلام کے خلفا ۱ کے بيٹے سب ہي مدينے ميں موجود تھے ليکن کوئي ايک بھي اِس بات کيلئے تيار نہيں ہوا کہ اُس خوني اور تاريخي قيام ميں امام حسين کي مدد کرے ۔

پس قيام امام حسين کے شروع سے قبل عالم اسلام کے خاص الخاص افراد اور بزرگ ہستياںبھي ايک قدم اٹھانے کيلئے تيار نہيں تھيں ليکن امام حسين کے قيام و تحريک کي ابتدائ کے بعد يہ روح زندہ ہوگئي۔ يہ وہ عظيم درس ہے کہ جو واقعہ کربلا ميں دوسرے درسوں کے ساتھ موجود ہے اور يہ ہے اِس واقعہ کي عظمت! يہ جو کہا گيا ہے کہ ’’اَلمَدعُوّ لِشَھَادَتِہِ قَبلَ اِستِھلَالِہِ وَوِلَادَتِہ‘‘ِ يا اُن کي ولادت باسعادت سے قبل ’’بَکَتہُ السَّمَآئُ وَ مَن فِيھَا وَالاَرضُ وَمَن عَلَيھَا‘‘ کہا گيا ہے اور لوگوں کو امام حسين کے اِس عظيم غم اور عزائ اور اُس کے خاص احترام کي طرف متوجہ کيا گيا ہے اور اِن دعاوں اور زيارت کي تعبيرات ميں اُن پر گريہ کيا گيا ہے تو اِن سب کي وجہ يہي ہے ۔ ١

 

٤۔واقعہ کربلا کي انفراديت و عظمت!

کربلا ،تا ريخ کے اُفق سے کبھي نہ غروب ہونے والا سورج ہے!واقعہ کر بلاکے تاريخ ميں اتنے انمٹ نقوش چھوڑے جانے کي کيا وجوہات ہيں؟ ميري نظر ميں واقعہ کربلا اِ س جہت سے اہميت و کمال کا حامل ہے کيونکہ اِس واقعہ کي ايثار وفداکاري، ايک استثنائي اور مافوق نوعيت کي تھي۔ تاريخ اسلام اپني ابتدائ سے آج تک بے شمار جنگوں، شہادتوں اور ايثار و فداکاري کي داستانوں سے پُر ہے ۔ ہم نے اپنے زمانے ميں خود مشاہدہ کيا کہ بہت سے افراد نے راہ خدا ميں جہاد کيا، ايثار و فداکاري کي نئي داستانوں کو رقم کيا اور سخت سے سخت سے حالات کو تحمل کيا ۔ماضي ميں بھي ايسي مثاليں فراوان ہيں اور آپ نے تاريخ ميں اِن کا مطالعہ کيا ہے ليکن اِن سب ميں سے کوئي ايک بھي واقعہ ، واقعہ کربلا سے قابل موازنہ نہيں ہے حتيٰ کہ بدر واحد اور اوائلِ اسلام کے ديگر شہدائ سے بھي۔ انسان جب غوروفکر سے کام ليتا ہے تو سمجھتا ہے کہ ہمارے چند آئمہ ميں سے نقل کيا گيا ہے کہ اُنہوں نے سيد الشہدا کو مخاطب کرتے ہوئے فرمايا کہ ’’لَا يَومَ کَيَومِکَ يَا اَبَا عَبدِ اللّٰہِ ‘‘، يعني ’’ اے ابا عبد اللہ(امام حسين ) !کوئي واقعہ، آپ کے واقعہ کربلا اور کوئي دن آپ کے دن ’’عاشورا‘‘ کے جيسا نہيں ہے‘‘!

------------

١ سپاہ پاسداران سے خطاب 26/1/1992

چونکہ واقعہ کربلا ايک استثنائي واقعہ ہے ۔

واقعہ کربلا کا لبّ لباب يہ ہے کہ جب پوري دنيا ظلم و ستم اور برائيوں ميں گھري ہوئي تھي تو يہ فقط امام حسين ہي تھے کہ جنہوں نے اسلام کي نجات کيلئے قيام کيا اور اتني بڑي دنيا ميں سے کسي بھي ايک (بزرگ و عظيم اسلامي شخصيت) نے اُن کي مدد نہيں کي! حتيٰ آپ کے دوستوں نے بھي يعني وہ افراد کہ جن ميں سے ہر ايک کچھ افراد يا گروہ کو يزيد سے مقابلہ کرنے کيلئے ميدان ميں لا سکتا تھا ليکن ہرکوئي کسي نہ کسي عذر و بہانے سے ميدان

سے فرار کرگيا ۔ ابن عباس۱ نے کوئي عذر تراشا، عبداللہ بن جعفر۱ نے کوئي بہانہ بنايا، عبداللہ بن زبير۱ نے کسي اور شرعي حيلے کا سہارا ليا اور صحابہ ۱ او ر تابعين ۱ سے تعلق رکھنے والي باقي بزرگ ہستيوں نے کسي اور وسيلے سے اپني جان بچانے ميں ہي عافيت سمجھي، غرضيکہ مشہور و معروف شخصيات اور صاحبانِ مقام و منزلت نے ميدانِ مبارزہ خالي کرديا ۔ يہ وہ وقت تھا کہ جب يہ سب افرادباتوں کي دنيا ميں اسلام کے دفاع کو اہميت ديتے اور اُسي کي بات کرتے تھے ليکن جب عمل کي منزل آئي اور ديکھا کہ يزيدي حکومت جو ظالم ہے، رحم نہيں کرتي اور سختي سے مخالف گروہوں اور افرادکو سرکوب کرتي ہے تو اِن سب ميں سے ہر ايک نے ميدان عمل سے فرار کيا اور کسي نہ کسي گوشہ و کنار ميں جاکر پناہ لي اور امام حسين کو ميدانِ جنگ ميں يکتاو تنہا چھوڑ ديا ۔ اور تو اور اپنے اِس کام کيلئے تو جيہات بھي کرنے لگے اور امام حسين کي خدمت ميں آکر اُن سے اصرار کرنے لگے کہ ’’آقا! آپ يزيد کے خلاف قيام و جنگ کا خيال دل سے نکال ديں اور يہ کام انجام نہ ديں‘‘۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next