امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



١ ماہ محرم کي آمد سے قبل عوامي اجتماع سے خطاب 1/7/1992

حسيني تحريک کا خلاصہ

 

انساني جہالت اور پستي کے خلاف جنگ!

امام حسين کي زيارت اربعين ميں ايک جملہ ذکر کيا گيا ہے جو مختلف زيارتوں اور دعاوں کے جملوں کي مانند قابل تآمّل اور معني خيزجملہ ہے اور وہ جملہ يہ ہے ’’وَ بَذَلَ مَھجَتَہُ فِيکَ‘‘ ، يعني زيارت پڑھنے والا خدا کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ’’ امام حسين نے اپني پوري ہستي اور دنيا ، اپني جان اور خون کو تيري راہ ميں قربان کرديا‘‘؛’’لِيَستَنقِذَ عِبَادِکَ مِنَ الجَھَالَۃِ وَحَيرَۃِالضَّلَالَۃِ‘ ،’’تاکہ تيرے بندوں کو جہالت سے نجات دلائيںاور ضلالت و گمراہي کي حيرت و سرگرداني سے اُنہيں باہرنکاليں‘‘۔ يہ اِس حقيقت کا ايک رُخ ہے يعني يہ حسين ابن علي ہے کہ جس نے قيام کيا ہے ۔ اِس حقيقت کا دوسرا رخ جسے اِس زيارت کا اگلا جملہ بيان کرتا ہے، ’’وَقَد تَوَازَرَ عَلَيہِ مَن غَرَّتہُ الدُّنيَا وَبَاعَ حَظَّہُ بِالاَرذَلِ الاَدنٰٰٰٰي‘‘ ،اِس واقعہ ميں امام ٴکے مدِ مقابل وہ لوگ تھے جو زندگي و دنيا سے فريب کھا کر اپني ذات ميں کھو گئے تھے، دنياوي مال و منال، خواہشات نفساني اور شہوت پرستي نے اُنہيں خود سے بے خود کرديا تھا، ’’وَبَاعَ حَظَّہُ بِالاَرذَلِ الاَدنٰي‘‘؛’’اُنہوں نے اپنے حصے کو کوڑيوں کے دام بيچ ڈالا‘‘۔ خداوند عالم نے عالم خلقت ميں ہر انسان کيلئے ايک خاص حصہ قرار ديا ہے اور وہ حصہ ،دنيا و آخرت کي سعادت و خوش بختي سے عبارت ہے ۔ اِن لوگوں نے اپني دنيا و آخرت کي سعادت کو دنيا کي صرف چند روزہ فاني زندگي کے عوض فروخت کرڈالا ۔ يہ ہے حسيني تحريک کا خلاصہ کہ ايک طرف وہ عظمت و بزرگي اور ايک طرف يہ پستي اور ذلت و رسوائي!

اِس بيان ميں غوروفکر کرنے سے انسان اِس بات کا احساس کرتا ہے کہ حسيني تحريک کو دو مختلف نگاہوں سے ملاحظہ کيا جاسکتا ہے اور يہ دونوں نگاہيں درست ہيں ليکن يہ دونوں نگاہيں مجموعاً اِس تحريک کے مختلف اورعظيم ابعاو جہات کي نشاندہي کرنے والي ہيں ۔

ايک نگاہ امام حسين کي تحريک کي ظاہري صورت سے متعلق ہے کہ آپ ٴ کي يہ تحريک و قيام؛ ايک فاسق، ظالم اور منحرف يزيدي حکومت کے خلاف تھاليکن ظاہري و معمولي اور آدھے دن ميں ختم ہو جانے والي يہي تحريک درحقيقت ايک بہت بڑي تحريک تھي کہ جسے يہ نگاہ دوم بيان کرتي ہے اور وہ انسان کي جہالت و پستي کے خلاف امام ٴ کي تحريک ہے ۔صحيح ہے کہ امام حسين گرچہ يزيد سے مقابلہ کرتے ہيں ليکن يہ امام عالي مقام ٴ کاصرف يزيد جيسے بے قيمت اور پست انسان سے تاريخي اور عظيم مقابلہ نہيں ہے بلکہ انسان کي جہالت وپستي ، ذلت و رُسوائي اور گمراہي سے مقابلہ ہے اور درحقيقت امام ٴ نے اِن سے جنگ کي ہے ۔

 

امامت کي ملوکيت ميں تبديلي

اسلام کے ہاتھوں ايک آئيڈيل حکومت کي نبياد رکھي گئي ،اگر ہم اِس تناظر ميں واقعہ کربلا اور تحريک حسيني کا خلاصہ کرنا چاہيں تو اِ س طرح بيان کرسکتے ہيں کہ امام حسين کے زمانے ميں بشريت؛ ظلم و جہالت اور طبقاتي نظام کے ہاتھوں پس رہي تھي اور دنيا کي بڑي بڑي حکومتيں خواہ وہ ايراني شہنشائيت ہو يا رومي سلطنت و بادشاہت، سب کي سب غير عوامي، عياشي، ظلم و ستم اور جہالت و برائيوں کي حکومتيں تھيں ۔

اِسي طرح نسبتاً چھوٹي حکومتيں جو جزيرۃ العرب ميں قائم تھيں، اُن سے بدتر تھيں غرضيکہ پوري دنيا پر جہالت Ú©Û’ سياہ بادل چھائے ہوئے تھے Û” اِس ظلمت Ùˆ تاريکي ميں نور اسلام Ù†Û’ پيغمبر خدا  Ú©Û’ وسيلے، امداد الٰہي اور عوام Ú©ÙŠ طاقت فرسا جدوجہد Ú©Û’ ذريعہ جزيرۃ العرب Ú©Û’ ايک علاقے Ú©Ùˆ منور کيا، بعد ميں يہ نور آہستہ آہستہ پھيلتا رہا اوراُس Ù†Û’ ايک وسيع Ùˆ عريض علاقے Ú©Ùˆ منور کرديا Û”

جب حضرت ختمي مرتبت  کا وصال ہوا تو آپ Ú©ÙŠ يہ حکومت ايسي حکومت تھي جو تاريخ بشريت ميں سب کيلئے ايک آئيڈيل تھي اور اگر وہ حکومت اُسي طرح باقي رہتي تو بلاشک Ùˆ شبہ وہ تاريخ Ú©Ùˆ تبديل کرديتي يعني جو Ú©Ú†Ú¾ صديوں Ú©Û’ بعد يعني امام زمانہ Ú©Û’ ظہور Ú©Û’ زمانے ميں ظہور پذير ہوتا وہ اُسي زمانے ميں وقوع پذير ہوجاتا Û” امام زمانہ Ú©Û’ ظہور Ú©Û’ بعد Ú©ÙŠ دنيا عدل Ùˆ انصاف، پاکيزگي، سچائي اور معرفت Ùˆ محبت Ú©ÙŠ دنيا ہے، اِس عالم ہستي Ú©ÙŠ حقيقي دنيا امام زمانہ Ú©Û’ ظہور Ú©Û’ بعد Ú©Û’ زمانے سے متعلق ہے کہ يہ صرف خدا ہے جانتا ہے کہ اُس وقت بشر Ú©Ù† عظمتوں اور فضيلتوں Ú©Ùˆ حاصل کرے گا Û” بنابراِيں ØŒ اگر پيغمبر اسلام  Ú©ÙŠ حکومت جاري رہتي تو تاريخ انسانيت تبديل ہوجاتي ليکن Ú©Ú†Ú¾ خاص حالات Ú©ÙŠ وجہ سے يہ کام انجام نہ پاسکا Û”

پيغمبر اسلام  Ú©ÙŠ حکومت Ú©ÙŠ خصوصيت يہ تھي کہ ُاس Ú©ÙŠ بنياديں ظلم Ùˆ ستم Ú©Û’ بجائے عدل Ùˆ انصاف Ø› شرک اور انساني فکر Ú©Ùˆ متفرق اور پرا کندہ کرنے Ú©Û’ بجائے توحيد اور پروردگار عالم Ú©ÙŠ بندگي پر تمرکز؛ جہالت Ú©Û’ بجائے علم Ùˆ معرفت اور حسد وکينے Ú©Û’ بجائے انسانوں ميں محبت Ùˆ ہمدردي اور مداراکرنے Ú©Û’ رابطوں Ú©ÙŠ بنيادوں پر قائم تھي۔ ايسي حکومت Ú©Û’ سائے ميں پرورش پانے والا انسان ؛باتقويٰ ØŒ پاکدامن ØŒ عالم ØŒ بابصيرت، فعال، پُرنشاط، متحرک اور کمال Ú©ÙŠ طرف گامزن ہوگا Û” ليکن پچاس سال بعد حالات بالکل ہي بدل گئے، نام کا اسلام رہ گيا اور لوگ صرف ظاہري مسلمان تھے ليکن باطن ميں اسلام Ùˆ اسلامي تعليمات کا دور دور تک کوئي نام Ùˆ نشان نہيں تھا Û” عدل Ùˆ انصاف Ú©ÙŠ حکومت Ú©Û’ بجائے ظالم حکومت برسر اقتدار آگئي، اُخوت Ùˆ مساوات Ú©ÙŠ جگہ طبقاتي نظام اور گروہ بندي برا جمان ہو گئے اورنور ِمعرفت بجائے جہالت Ú©Û’ سياہ با دلوںنے لوگوں پر سايہ کرليا Û” اِن پچاس سالوں ميں آپ جتنا Ø¢Ú¯Û’ Ú©ÙŠ طرف جاتے جائيں Ú¯Û’ اور اگر انسان ايسي مثاليں ڈھونڈنا چاہے تو ايسے سينکڑوں مثاليں موجود ہيں جنہيں اہل تحقيق ،نوجوان نسل کيلئے بيان کرسکتے ہيں Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next