امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



 

-------

١ تقريباً ١٩٩٨ ميں کيونکہ يہ تقرير سن ٢٠٠٠ کي ہے ۔

Ù¢ خطبہ نماز جمعہ، 8/05/2000      

 

ہدف کے حصول ميں امام حسين کا عزم وحوصلہ اور شجا عت

دشمن کے خلاف جنگ کي بہترين حکمت عملي

ميرے دوستو! ايسا انسان اسوہ عمل قرار ديئے جانے کا حقدار ہے ۔ يہ تمام باتيں اور يہ (انفرادي ، ثقافتي اور سياسي ميدان اور اِن ميں آپ کي فعاليت) واقعہ کربلا سے قبل ہے ۔ ان تينوں مراحل ميں امام حسين نے ايک لمحے کيلئے توقف نہيں فرمايا اور ہر آن و ہر لمحے اپنے ہدف کي جانب بڑھتے رہے ۔ لہٰذا ہميں بھي کسي بھي لمحے کو ضايع نہيں کرنا چاہيے ممکن ہے وہي ايک لمحے کا توقف و آرام دشمن کے تسلط کا باعث بن جائے ۔ دشمن ہماري کمزوريوں اور فصيل کے غير محفوظ حصوں کي تلاش ميں ہے تاکہ اندر نفوذ کرسکے اور وہ اِس بات کا منتظر ہے کہ ہم رُکيں اور وہ حملہ کرے ۔ دشمن کے حملے کو روکنے اور اُسے غافل گير کرنے کا سب سے بہترين راستہ آپ کا حملہ ہے اور آپ کي اپنے مقصد کي طرف پيشقدمي اور پيشرفت دراصل دشمن پر کاري ضرب ہے ۔

بعض افرا يہ خيال کرتے ہيں کہ دشمن پر حملے کا مطلب يہ ہے کہ انسان صرف توپ اور بندوق وغيرہ کو ہي دشمن کے خلاف استعمال کرے يا سياسي ميدان ميں فرياد بلند کرے، البتہ يہ تمام امور اپنے اپنے مقام پر صحيح اور لازمي ہيں ؛جي بالکل لازمي ہے کہ انسان سياسي ميدان ميں اپني آواز دوسروں تک پہنچائے ۔ بعض افراد يہ خيال نہ کريں کہ ہم ثقافت کي بات کرتے ہيں تو اِس کا مطلب دشمن کے خلاف فرياد بلند کرنا ہے تاکہ وہ اپنے ثقافتي حملوں کو روک دے،نہيں؛ البتہ يہ کام اپني جگہ درست اور لازمي ہے ليکن راہ حل صرف يہ ايک عمل نہيں ہے ۔

انسان کا اپنے ليے ، اپني اولاد، ماتحت افراد اور امت مسلمہ کيلئے تعمير نو کے حوالے سے کام کرنا دراصل عظيم ترين کاموں سے تعلق رکھتا ہے ۔ دشمن مسلسل کوششيں کررہا ہے تاکہ کسي طرح بھي ہو سکے ہم ميں نفوذ کرے؛ يہ تو نہيں ہوسکتا کہ دشمن ہميں ہمارے حال پر چھوڑ دے! ہمارا دشمن اپني تمام تر ظاہري خوبصورتي کے ساتھ ہمارے مقابلے پر ہے اور پورے مغربي استکبار اور اپني منحرف شدہ جاہلانہ اور طاغوتي ثقافت کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے ۔ يہ دشمن کئي صديوں قبل وجود ميں آچکا ہے اور اِس نے پوري دنيا کے اقتصادي، ثقافتي ، انساني اور سياسي وسائل پر اپنے ہاتھ پير جماليے ہيں ۔ ليکن اب اِسے ايک اہم ترين مانع_سچے اور خالص اسلام _کا سامنا ہے ۔ يہ اسلام کھوکھلا اور ظاہري و خشک اسلام نہيں ہے کہ جس نے دشمن کا راستہ روکا ہے؛ ہاں ايک ظاہري اور کھوکھلا اسلام بھي موجود ہے کہ جس کے پيروکاروں کا نام صرف مسلمان ہے ۔ يہ عالم استکبار اِن نام نہاد مسلمانوں کے ساتھ ہم نوالہ و ہم پيالہ ہے ،يہ مل کر آپس ميں گپ لگاتے ہيں اور ظاہر سي بات ہے کہ انہيں ايسے مسلمانوں اور اسلام سے کوئي خطرہ نہيں ہے ۔

 

خالص اسلام کي نشاني

دشمن کي آنکھ کا کانٹا اور اُس کي راہ کي رکاوٹ دراصل وہ سچا اور خالص اسلام ہے کہ جسے قرآن روشناس کرتا ہے اور وہ ’’لَن يَجعَلَ اللّٰہُ لِلکَافِرِينَ عَلَي المُومنِينَ سَبِيلاً‘‘ ،’’اللہ نے اہل ايمان پر کافروں کي برتري و فضيلت کي کوئي راہ قرار نہيں دي ہے‘‘ اور ’’اَن ِالحُکمُ اِلَّا لِلّٰہِ ‘‘ ،’’حکم صرف خدا ہي کا ہے‘‘ ،کا اسلام ہے ۔ اگر آپ کسي دائرے کوتھوڑا سا کم کريں تو آپ دائرے کے مرکز سے نزديک ہوجائيں گے، يعني يہ واقعي اور خالص اسلام ’’اِنَّ اللّٰہَ اشتريٰ مِنَ المُومِنِيْنَ اَنفُسَہُم و اَموالَہُم باَنَّ لَہُمُ الجَنَّۃُ ‘‘ ،’’اللہ نے مومنين ميں سے کچھ کي جانوں اور مالوں کو خريد ليا ہے اور اُن کيلئے جنت قرار دي ہے‘‘ ،کا اسلام ہے ۔ يہ آپ لوگوں کا اسلام ہے کہ جن کے جسموں ميں ابھي تک دشمن کي گولياں موجود ہيں اورجو سرتاپا جہاد في سبيل اللہ اور راہ خدا ميں جنگ کا منہ بولتا ثبوت ہيں، خواہ وہ جنگ ميں زخمي و معلول ہونے والے افراد ہوں يا شہدائ کے گھر والے ہوں يا پھر وہ لوگ جو درجہ شہادت پر فائز ہوئے يا الحمد للہ غازي بن کر ميدان جنگ سے لوٹے؛ دشمن کي راہ کي اصلي رکاوٹ يہ لوگ ہيں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next