امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



اگر آپ انبيا کي تحريکوں کا مطالعہ کريں تو آپ ديکھيں گے کہ جب انبيا مبعوث ہوتے تھے تو

پہلے مرحلے پر اُن Ú©Û’ گرد جمع ہونے والے افراد استدلال Ùˆ برہان Ú©ÙŠ وجہ سے اُن Ú©Û’ پاس نہيں آتے تھے Û” آپ پيغمبر اکرم  Ú©Ùˆ سيرت Ú©Û’ ملاحظہ کيجئے تو آپ Ú©Ùˆ کہيں نظر نہيں آئے گا کہ آنحضرت Ù†Û’ قابليت Ùˆ استعداد رکھنے والے کفار Ú©Ùˆ اپنے سامنے بٹھا کر دليل Ùˆ برہان سے بات Ú©ÙŠ ہو کہ يہ خدا Ú©Û’ وجود Ú©ÙŠ دليل ہے يا اِس دليل Ú©ÙŠ روشني ميں خدا، واحد ہے يا اِس عقلي دليل Ú©ÙŠ بنياد پر تم جن بتوں Ú©ÙŠ پرستش کرتے ہو وہ باطل ہے !دليل Ùˆ برہان Ú©Ùˆ وہاں استعمال کيا جاتا ہے کہ جب کوئي تحريک زور Ù¾Ú©Ú‘ جاتي ہے جبکہ پہلے مرحلے پر تحريک، ہمدردي Ú©Û’ جذبات Ùˆ احساسات اور پيار Ùˆ محبت Ú©ÙŠ زبان Ú©Û’ ہمراہ ہوتي ہے Û” پہلے مرحلے پر اُن Ú©Û’ سوئے ہوئے ضميروں Ú©Ùˆ بيدار کرنے کيلئے کہا جاتا ہے کہ ’’اِن بتوں Ú©Ùˆ ديکھو کہ يہ کتنے ناتوان اور عاجز ہيں‘‘۔ پيغمبر اکرم  اپني دعوت Ú©Û’ پہلے مرحلے پر فرماتے ہيں کہ ’’ديکھو! خداوند متعال، واحد ہے‘‘،’’ قُولُوا لَا اِلٰہَ اِلّا اللّٰہُ تُفلِحُوا‘‘؛ ’’کہوکہ نہيں ہے کوئي معبود سوائے اللہ Ú©Û’ اور فلاح پاجاو‘‘۔ ’’لَا اِلٰہَ اِلّا اللّٰہ‘‘ کہنا کس دليل Ú©ÙŠ بنا پر’’ تُفلِحُوا‘‘ (نجات پانے)کا باعث بنتا ہے ØŸ حضرت ختمي مرتبت Ù†Û’ يہاں اِس بات کوکيلئے کون سي عقلي اور فلسفي دليل پيش کي؟ البتہ ہر احساس ميں کہ جو سچا اور صادق ہو، ايک فلسفي دليل پوشيدہ ہوتي ہے Û”

ہم يہاں اِس پر بحث کررہے ہيں کہ جب کوئي نبي اپني دعوت کا اعلان کرتا ہے تووہ خدا کي طرف عقلي اور فلسفي دليل وبرہان سے لوگوں کو دعوت نہيں ديتا بلکہ احساسات اور پيار و محبت کي زبان استعمال کرتا ہے البتہ يہ بات ضرور ہے کہ يہ سچے احساسات، غلط اور بے منطق نہيں ہوتے اور اِن ميں استدلال و برہان پوشيدہ ہوتے ہیں ۔ نبي پہلے مرحلے پر معاشرے ميں موجودلوگوں پر ظلم و ستم ، طبقاتي نظام اور لوگوں پر جنّ وبشر اور شياطينِ اِنس کے خودساختہ خداوں ’’اَندَادُ اللّٰہ‘‘ کے دباو کواپنا ہدف بناتا ہے ؛يہ ہے احساسات اور مہرباني کي زبان۔ ليکن جب کوئي تحريک اپني راہ پر چل پڑتي ہے تو اُس کے بعد منطقي استدلال و برہان کي نوبت آتي ہے ، يعني وہ افراد جو عقل و خِرد اور فکري پيشرفت کے حامل ہوتے ہيں وہ اعليٰ ترين دليل و برہان تک پہنچ جا تے ہيں ليکن بعض افراد ابتدائي مراحل ميں ہي پھنسے رہ جاتے ہيں ۔

ليکن يہ بھي نہيں معلوم کہ جو دليل Ùˆ برہان Ú©Û’ اعليٰ درجات Ú©Û’ حامل ہوتے ہيں وہ اعليٰ معنوي درجات بھي رکھتے ہيں يا نہيں؟ نہيں! کبھي ايسا بھي ہوتا ہے کہ چھوٹي اور ابتدائي سطح Ú©Û’ استدلال رکھنے والے افراد ميں مہرباني اور ہمدردي Ú©Û’ احساسات زيادہ ہوتے ہيں، عالم غيب سے اُن کا رابطہ زيادہ مستحکم ہوتا ہے اور رسول اکرم  سے اُن Ú©ÙŠ محبت کا دريا زيادہ موجيں مارتا ہے اور يہي لوگ ہيں جو عالي Ùˆ بلند درجات تک پہنچتے ہيں Û”

 

اعلي ہدف!

روحانيت اور معنويت کي دنيا ميں محبت اور مہرباني کا اپنا ايک خاص اور الگ مقام ہے؛ نہ مہرباني، دليل و برہان کي جگہ لے سکتي ہے اور نہ ہي دليل و برہان، مہرباني ،احساسات کي جگہ پُر کرسکتے ہیں ۔ واقعہ کربلا اپني ذات اور حقيقت ميںسچے قسم کے مہرباني اور محبت کے جذبات و احساسات لئے ہوا ہے ۔ايک ايسے اعليٰ صفت اورپاک و پاکيزہ نوراني انسان کي ملکوتي شخصيت ميں نقص و عيب اور دھوکہ و فريب کا دور دور تک کوئي شائبہ نہيں ہے جو ايک عظيم ہدف کيلئے کہ جس کے بارے ميں تمام مُنصِفين عالم متفق القول ہيں کہ اُس کا قيام معاشرے کو ظلم و ستم سے نجات دلانے کيلئے تھا ، ايک عجيب و غريب تحريک کا آغاز کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’’اَيُّہَا النَّاسُ! اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّي اللّٰہُ عَلَيہِ وآلِہِ وَسَلَّم قَالَ مَن رَآَيٰ سُلطَانًا جَائرًا ۔۔۔‘‘۔ يہاں امام حسين ظلم و ستم سے مقابلے کو اپني تحريک کا فلسفہ قرار دے کر اُس کا اعلان فرمارہے ہيں کہ ’’يَعمَلُ فِي عِبَادِاللّٰہِ بِالجَورِ والطُّغيَانِ وَبالاِثمِ وَالعُدوَانِ‘‘؛يعني’’ جو بندگانِ خدا پر ظلم و جوراورگناہ و معصيت سے حکومت کر رہا ہے‘‘۔ يہاں بات مقدس ترين اہداف کي ہے کہ جسے تمام مُنصِفِين عالم قبول کرتے ہيں؛ايسا انسان اپنے ايسے بلند اور مقدس ہدف کي راہ ميں جنگ اورمبارزے کي سختيوں اور مصائب کو تحمل کرتا ہے ۔

 

غريبانہ جنگ!

سب سے دشوار ترين جنگ، غريبانہ جنگ ہے ۔ اپنے دوستوں کي داد و تحسين ، نعروں، جوش و خروش اور ولولے کو بڑھانے کے احساسات کے ساتھ ميدان جنگ ميں موت کے منہ ميں جانا چنداں مشکل نہيں ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next