امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



امام حسين کي تحريک وقيام کي پہلي جہت ميں کہ جہاں امام ٴ نے ايک انقلابي تحريک کي بنياد رکھي، عزت و سربلندي موجزن ہے ؛سيد الشہدا کے مدمقابل کون تھا؟ آپ کے مد مقابل ايسي ظالم و فاسق حکومت تھي کہ جو ’’يَعمَل فِي عِبَادِاللّٰہِ بِالاِثمِ وَالعُدوَان‘‘ ،جو معاشرے ميںگناہ و سرکشي سے حکو مت کر رہي تھي۔اُس معاشرے کي حالت يہ تھي کہ پورا معاشرہ اُس ظالم حکومت کے پنجوں ميںجکڑا ہوا تھا اور جہاں بندگانِ خدا پرظلم و ستم ، غرور و تکبر اور خود خواہي اور خود پرستي کي بنيادوں پر حکومت کي جاتي تھي، لوگوں کے ايمان و معنويت اور اُن کے انساني حقوق کا ذرا سا بھي خيال نہيں رکھا جاتا ہے، برسر اقتدار طبقہ نے اسلامي حکومت کو ظہوراسلام سے قبل دنيا ميں موجود طاغوتي حکومتوں ميں تبديل کرديا تھاجبکہ ايک اسلامي نظام کي اہم ترين خصوصيت،اُس کي ’’عادلانہ حکومت ‘‘ہے اور اُس تصوّراتي معاشرے (مدينہ فاضلہ)کے خدوخال کہ جسے اسلام شکل و صورت دينا چاہتا تھا،حکومت کے طرز عمل اور حاکم وقت کے رويے سے تعلق رکھتے ہيں ۔

 

اُ س زمانے کي بزرگ ہستيوں کے بقول، امامت کو ملوکيت و سلطنت ميں تبديل کرديا گيا تھا ۔ امامت يعني دين و دنيا کي رہبري و راہنمائي، يعني اُس کارواں کي قيادت جو ايک خاص الخاص اور عظيم ہدف کيلئے حرکت کررہا ہو کہ جہاں ايک فرد آگے آگے رہ کر کارواں ميں شامل تمام افراد کي راہنمائي و قيادت کرے ۔اِس طرح کہ اگر کوئي راستہ گم کردے (يا کارواں سے پيچھے رہ جائے) تو وہ رہبراُس کا ہاتھ تھام کر اُسے دوبارہ قافلے سے ملا دے، اگر کوئي تھک کر راستے ميں بيٹھ جائے تو بقيہ راستہ طے کرنے کيلئے اُس کي ہمت بندھائے، اگر کسي کا پاوں زخمي ہوجائے تو اُس کي مرہم پٹي کرے اور قافلے ميں شامل تمام افراد کي مادي اور معنوي مدد کرے ۔ اِسے اسلامي اصطلاح ميں ’’امام‘‘ يعني امامِ ہدايت کہا جاتا ہے؛ جبکہ ملوکيت و سلطنت اِس مفہوم و معني کے بالکل متضاد

ہے، سلطنت و ملوکيت يعني ميراث ميں ملنے والي بادشاہت کہ جو سلطنت کي ايک قسم ہے ۔چنانچہ دنيا ميں ايسے بھي سلاطين ہيں کہ جن کے نام سلطان اور بادشاہ نہيں ہيں ليکن اُن کے باطن دوسروں پر تسلط و برتري اور ظلم و ستم کي رنگ و بُو سے پُر ہيں ۔ جو بھي تاريخ کے جس دور ميں بھي جب اپني قوم يا دوسري اقوام پر ظلم کرے گا،خواہ اُس کا نام کچھ بھي ہو، اُسے سلطنت و ملوکيت ہي کہا جا ئے گا ۔ ايک ملک کا صدر کہ جس کي تمام حکومتيں مستبکراورڈکٹيٹر رہي ہيں اور آج اُس کا واضح نمونہ امريکا ہے، اپنے آپ کو يہ حق ديتا ہے کہ کسي اخلاقي، علمي اور سياسي حقوق کے بغير اپنے اور اُس کي حمايت کرنے والي کمپنيوں کے منافع کو ملينوں انسانوں کے منافع پر ترجيح دے اور دنيا کي اقوام کے فيصلے خود کرے؛ يہ ہے سلطنت وملوکيت اور آمريت،خواہ اِس کانام بادشاہت ہو يا نہ ہو!

 

امام حسين سے بيعت کے مطالبے کي حقيقت!

حضرت امام حسين کے زمانے ميں امامت کو اِسي قسم کے نظام حکومت ميں تبديل کرديا گيا تھا کہ’’ يَعمَلُ فِي عِبَادِاللّٰہِ بِالاِثمِ وَالعُدوَانِ‘‘ ؛ ظلم و ستم اور گناہ کے ذريعہ لوگوں پر حکومت کي جارہي تھي اور حضرت امام حسين نے اِن بدترين حالات سے مقابلہ کيا ۔آپ کي جنگ مسلمانوں کو آگاہ کرنے،حقائق کو روشن و واضح کرنے، لوگوں کي ہدايت اور يزيد يا اُس سے قبل کے زمانوں کے حق و باطل کي درمياني حد کو مشخص کرنے کي جنگ تھي۔ فرق يہ ہے کہ جو کچھ يزيد کے زمانے ميں وقوع پذير ہوا وہ يہ تھا کہ وہ ظلم ، فاسق اور گمراہ حاکم اِس موقع کے انتظار ميں تھا کہ امام حسين جيسا ہدايت کا ہادي اور راہنمااُس کي حکومت کو قبول کرلے اور اُس کے کاموں پر اپني رضايت و پسنديدگي کا اظہار کرے! جس بيعت کا امام حسين سے مطالبہ کيا گيا تھا وہ يہي تھي۔

يزيد امام حسين سے اِس بات کا خواہاں تھا کہ وہ آپ کو مجبور کرے کہ آپ لوگوں کو ہدايت و راہنمائي کرنے کے بجائے اِس ظالم حکومت کي گمراہي و ضلالت کو لوگوں کيلئے جائز صورت ميں بيان کريں کہ آو اور اِس ظالم حکومت کي تائيد کرو اور اِس کے ہاتھ مضبوط بناو! امام حسين کا قيام اِسي جگہ سے شروع ہوتا ہے ۔ اگر يزيدي حکومت کي طرف سے اِس قسم کا بے جا اور بيہودہ و احمقانہ مطالبہ نہيں کيا جاتا تو اِس بات کا امکان تھا کہ سيد الشہدا نے جس طرح معاويہ کے دور حکومت ميںامّت کي ہدايت و راہنمائي کي اورجس انداز سے آپ کے بعد آنے والے آئمہ رہنمائي فرماتے رہے،آپ بھي پرچم ہديت کو اٹھاتے، لوگوں کي ہدايت کرتے اور حقائق

Ú©Ùˆ اُن کيلئے بيان فرماتے Û” ليکن يزيد Ù†Û’ اپني جہالت Ùˆ تکبر اور تمام فضائل اور معنويات سے دوري Ú©ÙŠ وجہ سے جلدي ميں ايک قدم Ø¢Ú¯Û’ بڑھايا اور امام حسين سے اِس بات Ú©ÙŠ توقع Ú©ÙŠ کہ وہ اسلام Ú©Û’ بے مثال’’ نظريہ امامت‘‘ Ú©Û’ طاغوتي اور سلطنت Ùˆ بادشاہت Ú©ÙŠ تبديلي Ú©Û’ سياہ قانون پر دستخط کرديں يعني اُس Ú©Û’ ہاتھوں پر بيعت کرليں Û” يہ وہ مقام ہے کہ جہاں سيد الشہدا فرماتے ہيں کہ ’’مِثلِي لَا يُبَايِعُ مِثلَہُ ‘‘ Ù¡ ،’’ميرا جيسا يزيد جيسے Ú©ÙŠ ہرگز بيعت نہيں کرسکتا‘‘، يعني حسين کبھي ايسي بيعت نہيں کرے گا Û” امام حسين Ú©Ùˆ پرچم حق Ú©Û’ عنوان سے تاابد تک باقي رہنا ہے اور حق کا پرچم نہ توباطل طاقتوں کيلئے استعمال ہوسکتا اور نہ ہي اُس Ú©Û’ رنگ ميں رنگ سکتا ہے Û” يہي وجہ ہے کہ امام حسين Ù†Û’ فرمايا ’’ھَيھَات مِنَّا الذِّلَّۃ‘‘ Ù¢ ،’’ذلت ہم سے دور ہے ‘‘۔امام حسين Ú©ÙŠ تحريک ،عزت Ùˆ سربلندي Ú©ÙŠ تحريک تھي يعني عزت ِ حق، عزتِ دين، عزتِ امامت اور رسول اللہ  Ú©Û’ دکھائے ہوئے راستے Ú©ÙŠ عزت! سيد الشہدا چونکہ عزت کا مظہر کامل تھے لہٰذا آپ Ù†Û’ قيام فرمايا؛ يہ ہے حسيني ٴعزت Ùˆ سربلندي!

------------

١ بحار الانوار جلد ٤٤، صفحہ ٣٢٥



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next