امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



دوسرا عامل و سبب کہ جس کي وجہ سے يہ حالات پيش آئے اور جسے انسان آئمہ طاہرين کي زندگي ميں بھي مشاہدہ کرتا ہے،وہ يہ تھا کہ اہل حق نے جو ولايت و تشيع کي بنياد تصور کيے جاتے تھے ، دنيائے اسلام کي سرنوشت و مستقبل سے بے اعتنائي برتي، اِس سے غافل ہوئے اور اِس مسئلے کي اہميت کو دل و دماغ سے نکال ديا ۔ بعض افراد نے کچھ ايام کيلئے تھوڑي بہت بہادري اور جوش و خروش کا مظاہرہ کيا کہ جس پر حکام وقت نے سخت گيري سے کام ليا ۔ مثلاً يزيد کے دور حکومت ميں مدينۃ النبي پر حملہ ہوا، جس پر اہلِ مدينہ نے يزيد کے خلاف آواز اٹھائي تويزيد نے اِن لوگوں کو سرکوب کرنے کيلئے ايک ظالم شخص کو بھيجاکہ جس نے مدينہ ميں قتل عام کيا،نتيجے ميں اِن تمام افراد نے حالات سے سمجھوتہ کرليا اور ہر قسم کي مزاحمتي تحريک کو روک کربگڑتے ہو ئے اجتماعي مسائل سے اپني آنکھيں بند کرليں ۔ البتہ اِن افراد ميں سب اہل مدينہ شامل نہيں ہيں بلکہ تھوڑے بہت ايسے افرادبھي تھے کہ جن کے درميان خود اختلاف تھا ۔ يزيد کے خلاف مدينے ميں اٹھنے والي تحريک ميں اسلامي تعليمات کے برخلاف عمل کيا گيا، يعني نہ اُن ميں اتحاد تھا، نہ اُن کے کام منظم تھے اور نہ ہي يہ گروہ اور طاقتيں آپس ميں مکمل طورپرايک دوسرے سے مربوط و متصل تھيں ۔ جس کا نتيجہ يہ نکلا کہ دشمن نے بے رحمي اورنہايت سختي کے ساتھ ِاس تحريک کا سرکچل ديا اور پہلے ہي حملے ميں اِن کي ہمتيں جواب دے گئيں اور اُنہوں نے عقب نشيني کرلي؛ يہ بہت اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے ۔

آپس ميں مقابلہ کرنے اور ايک دوسرے کو نقصان پہنچانے والي حق و باطل کي طاقتوں کي جد و جہد بہت واضح سي بات ہے، جس طرح حق ،باطل کو ختم کرنا چاہتا ہے اُسي طرح باطل بھي حق کي نابودي کيلئے کوشاںرہتا ہے ۔ يہ حملے ہوتے رہتے ہيں اور قسمت کا فيصلہ اُس وقت ہوتا ہے کہ جب اِن طاقتوں ميں سے کوئي ايک تھک جائے اور جو بھي پہلے کمزور پڑے گا تو شکست اُس کا مقدر بنے گي۔ ١

----------

١ ٣ شعبان روز پاسدار کي مناسبت سے اندرون ملک نظم و نسق اور امن و امان برقرار کرنے والي نيروئے انتظامي اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامي سے خطاب 26/2/1996

قيام کربلا کے اجتماعي پہلو

 

قيام امام حسين کي خصوصيات

سيد الشہدا کا بہايا گيا خونِ ناحق تاريخ ميںہميشہ محفوظ ہے، چونکہ شہيد يعني وہ شخص جو اپني جان کو خلوص کے طبق ميں رکھ کر دين کے بلند ترين اہداف کيلئے پيش کرتا ہے اور ايک خاص قسم کي صداقت اور نورانيت کا حامل ہوتا ہے ۔ کوئي کتنا ہي بڑا کاذب و مکار کيوں نہ ہو اور اپني زبان و بيان سے خود کو حق کا کتنا ہي بڑا طرفدار بناکر کيوں نہ پيش کرے ليکن جب اُس کے شخصي منافع خصوصاً جب اُس کي اور اُس کے عزيز ترين افراد کي جان خطرے ميں پڑتي ہے تو وہ پيچھے ہٹ جاتا ہے اور کسي بھي قيمت پر حاضر نہيں ہوتا کہ اُنہيں قربان کرے ۔ ليکن وہ

شخص جو ايثار و فداکاري کے ميدان ميں قدم رکھتا ہے اور مخلصانہ طور پر اپني تمام ہستي کو راہ الٰہي ميں پيش کرتا ہے تو ’’حق? عَلَي اللّٰہِ‘‘ تو اُس کا خدا پر حق ہے يعني خدا اپنے ذمہ ليتا ہے کہ اُسے اور اُس کي ياد کوزندہ رکھے ۔ ’’وَلاَ تَقُولُوا لِمَن يُّقتَلُ فِي سَبِيلِ اللّٰہِ اَموات?‘‘ ،’’ جو خدا کي راہ ميں مارا جائے اُسے مردہ نہ کہو‘‘: ’’وَلَا تَحسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللّٰہِ اَموَاتًا بَل اَحيَآئ?‘‘ ،’’جو لوگ خدا کي راہ ميں قتل کرديے جائيں اُنہيں ہرگز مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہيں‘‘؛ شہيد في سبيل اللہ زندہ رہتے ہيں ۔ اُن کے زندہ رہنے کا ايک پہلو يہي ہے کہ اُن کي نشانياں اور قدموں کے نشان، راہِ حق سے کبھي نہيں مٹتے اور اُن کا بلند کيا ہوا پرچم کبھي نہيں جھکتا ۔ ممکن ہے چند روز کيلئے ظلم و ستم اور بڑي طاقتوں کي مداخلت کي وجہ سے اُن کي قر با ني اورفدا کا ري کے رنگ کو پھيکا کر ديں ليکن خداوند عالم نے قانونِ طبيعت کو اِسي طرح قرار ديا ہے اور خدا کي سنت اور قانون يہ ہے کہ پاک و پاکيزہ اور صالح و مخلص افراد کا راستہ ہميشہ باقي رہے ۔ خلوص بہت ہي عجيب چيز ہے لہٰذا يہي وجہ ہے کہ امام حسين کي ذات گرامي ،اُن کے اور اُن کے اصحابِ با وفا کے بہائے گئے خونِ ناحق کي برکت سے آج دنيا ميں دين باقي ہے اور تاقيامت باقي رہے گا ۔

ميں نے امام حسين کے تمام ارشادات ميں کہ جن ميں سے ہر ايک ميں کوئي نہ کوئي تربيتي نکتہ موجود ہے اور ميں آپ کي خدمت ميں عرض کروں کہ لوگوں کي ہدايت و اصلاح کيلئے امام ٴکے ارشادات سے زيادہ سے زيادہ استفادہ کيا جائے، اِ س جملے کو اپني آج کي اِس محفل کيلئے زينت قرار ديا ہے کہ جسے آپ کي خدمت ميں عرض کررہا ہوں ۔ امام ٴسے نقل کيا گيا ہے کہ آپ نے فرمايا ’’اَللَّھُمَّ اِنَّکَ تَعلَمُ اَنَّہُ لَم يکُن مِنَّا تَنَافُسًا سُلطَانِ وَلَا التِمَاسًا مِن فُضُولِ الحُطَامِ‘‘ ١ ’’پروردگارا! يہ تحريک جو ہم نے چلائي ہے، جس امر کیلئے قيام کيا اورجس ميںتجھ سے فيصلے کے طالب ہيں تو جانتا ہے کہ يہ سب ا قتدارکي خواہش کيلئے نہيں ہے؛ اقتدار کي خواہش ايک انسان کيلئے ہدف نہيں بن سکتي اور نہ ہي ہم چاہتے ہيں کہ زمام قدرت کو اپنے ہاتھ ميں ليں؛ نہ ہي ہمارا قيام دنيوي مال و منال کے حصول کيلئے ہے کہ اُس کے ذريعہ سے دنيوي لذتوں سے لُطف اندوز ہوں، شکم پُري کے تقاضے پورے کريں اور مال ودولت جمع کريں؛اِن ميںسے کوئي ايک بھي ہمارا ہدف و مقصد نہيں ہے‘‘۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next