امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



طوطے نے کہا ’’تم ہندوستان ميں فلاں جگہ جانا، وہاں ميرے عزيز و اقارب اور دوست احباب ہيں ، اُن سے کہنا کہ تمہاري قوم کا ايک طوطا ميرے گھر ميں پنجرے ميں ہے، يعني ميري حالت کو اُن کيلئے بيان کرنا؛ اِس کے علاوہ ميں تم سے کسي اور چيز کا طلبگار نہيں ہوں‘‘۔

يہ شخص ہندوستان گيا اور ُا س جگہ گيا کہ جہاں کا پتہ اُس کے طوطے نے ديا تھا ۔ اُس نے ديکھا کہ بہت سے طوطے درختوں پر بيٹھے ہيں، اُس نے اونچي آواز ميں سب کو مخاطب کيا اور کہا کہ اے ’’پيارے اور اچھے طوطوں! ميں تمہارے ليے ايک پيغام لايا ہوں ۔ تمہاري قوم کا ايک طوطا ميرے گھر ميں ہے، وہ بہت اچھي حالت ميں زندگي بسر کررہا ہے اور ميں نے اُسے پنجرے ميں قيد کيا ہوا ہے، ميں اُسے اچھي غذائيں ديتا ہوں اور اُس نے تم سب کو سلام کہا ہے‘‘۔ ابھي تاجر نے اتنا ہي کہا تھا کہ اُس نے ديکھا کہ وہ طوطے جو درختوں پر بيٹھے تھے ، اچانک اُنہوں نے اپنے پروں کو پھڑپھڑايا اور زمين پر گر پڑے ۔ يہ شخص آگے بڑھا تو ديکھا کہ يہ طوطے مرچکے ہيں، اُسے بہت افسوس ہوا کہ ميں نے ايسي بات ہي کيوں کي کہ جس کو سُننے سے يہ سارے پرندے مثلاً پانچ دس طوطے اپني جان گنوا بيٹھے ۔ اب جو ہونا تھا وہ ہوگيا اور اب کچھ نہيں کيا جاسکتا ہے ۔

تاجر جب اپنے وطن لوٹا اور اپنے گھر پہنچنے کے بعد طوطے کے پنجرے کے پاس گيا تو اُس نے کہا کہ ’’ميں نے تمہارا پيغام انہيں پہنچاديا تھا‘‘ ۔ طوطے نے پوچھا کہ ’’اُنہوں نے کيا جواب ديا‘‘۔ تاجر نے کہا کہ ’’جب انہوں نے مجھ سے تمہارا پيغام سنا تو پروں کو پھڑپھڑايا اور زمين پر گر کر مرگئے‘‘۔ ابھي تاجر نے اتنا ہي کہا تھا کہ اُس نے ديکھا کہ طوطے نے پنجرے ميں پر پھڑپھڑائے اور گر کر مرگيا ۔ تاجر کو اُس کي موت کا بہت افسوس ہوا، اُس نے پنجرے کا دروازہ کھولا کيونکہ اِس مردہ طوطے کو پنجرے ميں رکھنے کا اب کوئي فائدہ نہيں تھا ۔ اُس نے طوطے کو پنجوں سے پکڑا اور چھت کي طرف اچھال ديا ۔ طوطا جيسے ہي ہوا ميں اچھلا ، اُس نے فضا ميں ہي اپنے پروں کو پھڑپھڑانا شروع کرديا اور ديوار پر جا بيٹھا اور کہنے لگا کہ ’’اے تاجر ، اے ميرے دوست، ميں تمہارا بہت احسان مند ہوں کہ تم نے خود ميري رہائي کے اسباب فراہم کيے ۔ ميں مرا نہيں تھا بلکہ مردہ بن گيا تھا ! يہ وہ درس تھا کہ جسے ہندوستان کے طوطوں نے مجھے ديا ہے ۔ جب وہ متوجہ ہوئے کہ ميں يہاں پنجرے ميں قيد ہوں تو انہوں نے سوچا کہ وہ کس زبان سے کہيں کہ ميں کيا کام کروں تاکہ قيد سے رہائي حاصل کرسکوں؟ اُنہوں نے عملي طور پر مجھے بتايا کہ يہ کام انجام دوں تاکہ اسيري سے رہائي پاوں! مرجاو تاکہ زندہ ہوسکو ( اور آزادي کي زندگي گذارو)! ميں نے اُن کے پيغام کو تمہارے ذريعہ سے سمجھ ليا ۔ يہ وہ درس تھا کہ جو ہزاروں ميل دور اُس جگہ سے مجھ تک پہنچا اور ميں نے اُس درس سے اپني نجات و آزادي کيلئے اقدام کيا‘‘۔

ميں نے اُسي محفل ميں تقريباً بيس بائيس سال قبل(١٣٩٦ہجري ) موجود مرد و خواتين سے عرض کيا کہ محترم سامعين، امام حسين کس زبان سے ہميں سمجھائيں کہ تم سب کي ذمہ داري کيا ہے؟

 

امام حسين نے اپنے عظيم عمل سے ذمہ داري کو واضح کرديا

ہمارے زمانے کے حالات ، امام حسين کے زمانے کے حالات جيسے ہيں اور آج کي زندگي ، ويسي ہي زندگي ہے اور اسلام وہي اسلام ہے جو سيد الشہدا کے زمانے ميں تھا ۔ اگر امام حسين سے ايک جملہ بھي نقل نہ کيا جاتا تب بھي ہميں چاہيے تھا کہ ہم سمجھيں کہ ہماري ذمہ داري کيا ہے؟

وہ قوم جو اسير اور غير ملکي طاقتوں کي زنجيروں ميں قيد ہے، جس کے اعليٰ عہديدار برائيوں کا علي الاعلان ارتکاب کررہے ہيں، وہ قوم کہ جس پر دُشمنان دين حکومت کررہے ہيں اور اُس کي قسمت اور زندگي کے فيصلوں کو اپنے ہاتھوں ميں ليا ہوا ہے، لہٰذا تاريخ سے سبق لينا چاہيے کہ اِن حالات ميں ذمہ داري کيا ہے ۔ چونکہ فرزند پيغمبر نے عملي طور پر يہ بتاديا ہے کہ اِس قسم کے حالات ميں کيا کام کرنا چاہيے ۔

يہ درس ، زبان سے نہيں ديا جاسکتا تھا؛ اگر امام حسين اِسي درس کو سو مرتبہ بھي زبان سے کہتے اور عملي طور پر خود تشريف نہيں لے جاتے تو ممکن ہي نہيں تھا کہ آپ کا يہ پيغام صديوں پر محيط ہوجاتا؛ صرف نصيحت کرنے اور زباني جمع خرچ سے يہ پيغام صديوں کا فاصلہ طے نہيں کرپاتا اور تاريخ کے اُسي دور ميں ہي دفن ہوجاتا ۔ ايسے پيغام کو صديوں تک پھيلانے اور تاريخ کا سفر طے کرنے کيلئے عمل کي ضرورت تھي اور وہ بھي ايسا عمل کہ جو بہت عظيم ہو، سخت مشکلات کا سامنا کرنے والا ہو، جو ايثار و فداکاري اور عظمت کے ساتھ ہو اور پُر درد بھي ہو کہ جسے صرف امام حسين نے ہي انجام ديا!

حقيقت تو يہ ہے کہ واقعہ کربلا ميں روز عاشورا Ú©Û’ سے جو واقعات Ùˆ حادثات ہماري آنکھوں Ú©Û’ سامنے موجود ہيں، اُن کيلئے ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ يہ واقعات Ùˆ حادثات ØŒ پوري تاريخ بشريت ميں اپني نوعيت Ú©Û’ بے مثل Ùˆ نظير واقعات ہيں Û” جس طرح پيغمبر اکرم  Ù†Û’ فرمايا، امير المومنين Ù†Û’ فرمايا اور امام حسن مجتبيٰ Ù†Û’ فرمايا اور جو Ú©Ú†Ú¾ واقعات ميں آيا ہے کہ ’’لَا يَومَ کَيَومِکَ يَا اَبَا عَبدِ اللّٰہِ ‘‘ Ù¡ ،’’اے ابا عبداللہ ! (امام حسين ) کوئي دن بھي آپ Ú©Û’ دن،( عاشورا، کربلا اور آپ Ú©Û’ اِس حادثے )Ú©ÙŠ طرح نہيں ہے‘‘۔ Ù¢



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next