امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



ہے ۔ انسان کو چاہيے کہ شرعي واجبات اور ذمہ داريوں کو انجام دے، ليکن جب ايک کام ميں ايک بہت بڑا احتمال يا اعتراض واردہوجائے مثلاً اِس کام کي انجام دہي ميں بہت سے افراد قتل کرديئے جائيں گے تو اِن حالات ميں انسان يہ سوچتا ہے کہ اُس پر کوئي چيز واجب نہيں ہے اِس ليے کہ درميان ميں سينکڑوں بے گناہ افراد کي جانوں کا معاملہ ہے ۔ آپ ملاحظہ کيجئے کہ سيد الشہدا کے سامنے بھي ايسے بہت سے شرعي عُذر ايک ايک کرکے ظاہر ہوتے رہے کہ جو ايک سطحي نگاہ رکھنے والے انسان کو اُس کے راستے سے ہٹانے کيلئے کافي تھے ۔

سب سے پہلا شرعي عذر ، کوفہ کے لوگوں کا پلٹ جانا اور حضرت مسلم کا قتل تھا ۔ يہاں امام حسين کو يہ کہنا چاہيے تھا کہ اب شرعي عذر آگيا ہے اور جن لوگوں نے خود دعوت دي تھي اُنہوں نے خود ہي اپنا رُخ موڑ ليا لہٰذا اب کوئي کام واجب نہيں اور ذمہ داري ساقط ہو گئي ہے ۔ ہم يہ چاہتے تھے کہ يزيدکي بيعت نہ کريں ليکن اب حالات کا رُخ کچھ اور ہے اور اِن اوضاع و احوال ميں يہ کام انجام نہيں ديا جاسکتا اور لوگ بھي اِ س چيز کو برداشت نہيں کرسکتے، چنانچہ اب ہماري ذمہ داري ساقط ہے اور ہمارے پاس اب يزيد کي بيعت کرنے کے علاوہ کوئي اور چارہ کار نہيں ۔

دوسرا سامنے آنے والا شرعي عذرخود واقعہ کربلا ہے؛ اِس مقام پر بھي سيد الشہدا ايک مسئلے کے روبرو ہونے کي بنا پر جذباتي انداز سے اس مسئلے کو حل کرسکتے تھے اور يہ کہتے کہ اِن خواتين اور بچوں ميں اِس تپتے ہوئے صحرا کي گرمي اور سورج کي تمازت برداشت کرنے کي ہمت نہيں ہے ، لہٰذا اب اِن حالات ميں ہم پرکوئي ذمہ داري عائد نہيں ہوتي ہے اور اُنہوں نے جس چيز کو ابھي تک قبول نہيں کيا تھا اِن حالات اور عذر شرعي کي بنا پر قبول کرليتے ۔

تيسر عذرشرعي اُس وقت سامنے آيا کہ جب خود واقعہ کربلا ميں روز عاشورا کا سورج طلوع ہوا اور دشمن نے حملہ کرنا شروع کيا تو اِس جنگ ميں امام حسين کے بہت سے اصحاب شہيد ہوگئے ۔ اِس مقام پر بھي بہت سي مشکلات نے امام حسين کو آگھيرا تو آپ يہ بھي کہہ سکتے تھے کہ اب حالات نے رُخ موڑ ليا ہے اور اب اِس مقابلے کو جاري نہيں رکھا جاسکتا لہٰذا اب عقب نشيني کرني چاہيے ۔

چوتھا عذرشرعي اُس وقت پيش آيا کہ اُس وقت کہ جب آپ کو يقين ہوگيا کہ آپ ٴشہيد کر ديئے جائيں گے اورآپٴ کي شہادت کے بعد آل رسول اور آل علي کو نامحرموں کے درميان قيدي بناکر صحرائے کربلا ميں تنہا رہنا پڑے گا ۔ يہاں عزت و ناموس کا مسئلہ پيش تھا لہٰذا سيد الشہدا يہاں بھي ايک غيرت مند انسان کي طرح يہ کہہ سکتے تھے کہ اب عزت و ناموس کا مسئلہ درپيش ہے لہٰذا اب تو ذمہ داري بالکل ہي ساقط ہے اگر ہم اب بھي اِسي مقابلے کي راہ پر قدم اٹھائيں اور قتل ہوجائيں تو نتيجے ميں خاندان نبوت اور آل علي کي خواتين اور بيٹياں اور عالم اسلام کي پاکيزہ ترين ہستياں ايسے دشمنوں کے ہاتھوں قيدي بن جائيں گي کہ جو عزت و شرف اورناموس کي الف ب سے بھي واقف نہيں ہيں لہٰذا حالات ميں ذمہ داري ساقط ہے ۔

محترم بھائيو اور بہنو! توجہ کيجئے، يہ بہت ہي اہم مطلب ہے لہٰذا اِس نظر وزاويے سے واقعہ کربلا ميں بہت سنجيدگي سے غوروفکر کرنا چاہيے کہ اگر امام حسين شہادت ِحضرت علي اصغر ØŒ بچوں Ú©ÙŠ تشنگي، جوانان بني ہاشم Ú©Û’ قتل ØŒ خاندان رسول  Ú©ÙŠ خواتينِ عصمت Ùˆ طہارت Ú©ÙŠ اسيري جيسے ديگر تلخ اور دشوار حالات Ùˆ مصائب Ú©Û’ مقابلے ميں ايک معمولي ديندار انسان Ú©ÙŠ حيثيت سے بھي نگاہ کرتے تو اپنے عظيم ہدف اور پيغام Ú©Ùˆ فراموش کرديتے؛ وہ کوفہ ميں حضرت مسلم Ù´Ú©ÙŠ شہادت اور اُس Ú©Û’ بعد رُونما ہونے حالات سے Ù„Û’ کر روزِ عاشورا Ú©Û’ مختلف حوادث تک قدم قدم پر عقب نشيني کرسکتے تھے اور وہ يہ کہنے ميں حق بجانب تھے کہ اب ہماري کوئي شرعي ذمہ داري نہيں ہے، بس اب ہمارے پاس يزيد Ú©ÙŠ بيعت کرنے Ú©Û’ علاوہ کوئي اور چارہ نہيں ہے Û” ’’اَلضَّرُورَاتُ تُبِيحُ المَعذُورَاتِ‘‘، وقت اور ضرورت ہر چيز Ú©Ùˆ اپنے ليے مباح اور جائز بناليتے ہيں ليکن امام حسين Ù†Û’ ايسا ہرگز نہيں کيا Û” يہ ہے امام حسين کا راہ خدا ميں ثباتِ قدم او راستقامت !

 

شرعي عذر سے مقابلے ميں استقامت کي ضرورت!

استقامت کا معنيٰ يہ نہيں ہے کہ انسان ہر جگہ مشکلات و سختيوں کو برداشت کرے اور صبر سے کام لے ۔ عظيم اور بڑے انسانوں کيلئے مشکلات کو تحمل کرنا اُن چيزوں کي نسبت آسان ہے جو شرعي، عرفي اور عقلي اصول ، قوانين کي روشني ميں ممکن ہے کہ مصلحت کے خلاف نظر آئيں لہٰذا ايسے امور کو تحمل اور برداشت کرنا عام نوعيت کي مشکلات اور سختيوں پر تحمل سے زيادہ دشوار اور مشکل ہے ۔

ايک وقت ايک انسان سے کہا جاتا ہے کہ اِس راہ پر قدم نہ اٹھاو ورنہ تم کو شکنجہ کيا جائے اور تم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؛ وہ مضبوط ارادے کا مالک انسان يہ کہتا ہے کہ مجھے مختلف قسم کے شکنجوں کا سامنا کرنے پڑے گا تو اِس ميں کيا بات ہے؟! اپنے سفر کو جاري رکھوں گا يا ايک آدمي سے کہا جاتا ہے کہ يہ کام نہ کرو ، ممکن ہے کہ اس کام کي انجام دہي کے نتيجے ميں تم قتل کرديے جاو۔ مضبوط عزم و ارادے والايہ انسان کہتا ہے کہ قتل کرديا جاوں تو کرديا جاوں، اِس ميں کيا خاص بات ہے؟ ميں اپنے ہدف کي خاطر موت کو بھي خوشي خوشي گلے لگالوں گا لہٰذا ميں اپنے سفر کو جاري رکھوں گا ۔ ايک وقت انسان سے قتل ہونے ، شکنجہ ہونے اور مصائب و مشکلات کا سامنا کرنے کي بات نہيں کي جاتي بلکہ اُ س سے کہا جاتا ہے کہ يہ کام انجام نہ دو کيونکہ ممکن ہے کہ تمہارے اِس فعل کي وجہ سے دسيوں لوگوں کا خون بہايا جائے، يہاں تمہاري اپني ذات کا مسئلہ نہيں بلکہ دوسروں کي جانوں کا معاملہ درپيش ہے چنانچہ تم نہ جاو، ممکن ہے کہ تمہارے اِس فعل کے نتيجے ميں بہت سي خواتين ، مرد اور بچے سختي اور پريشانيوں کا شکار ہوجائيں ۔ يہي وہ جگہ ہے کہ جہاں اُن افراد کے پاوں لڑکھڑانے لگتے ہيں کہ جن کيلئے اپنے مقصد کے حصول کي راہ ميں قتل ہونا کوئي اہم بات نہيں ہے ۔ لہٰذا اِس مقام پر کسي کے پاوں نہيں لڑکھڑاتے تو اُسے سب سے پہلے مرحلے ميں انتہائي اعليٰ درجے کي بصيرت کا مالک ہونا چاہيے اور وہ يہ سمجھے کہ وہ کيا بڑا کام انجام دے رہا ہے ۔ دوسرے مرحلے ميں اُسے انتہائي قدرت نفس کا مالک ہونا چاہيے تاکہ اُس کا اندروني خوف و ضُعف اُس کے پاوں کي زنجير نہ بن جائے ۔ يہ وہ دو خصوصيات ہيں کہ جنہيں امام حسين نے کربلا ميں عملي طور پر دنيا کے سامنے پيش کيا ۔ يہي وجہ ہے کہ واقعہ کربلا ايک تابناک اور روشن خورشيد کي مانند پوري تاريخ پر جگمگا رہا ہے، يہ خورشيد آج بھي اپني کرنيں بکھيررہا ہے اور تاقيامت اسي طرح نور افشاني کرتا رہے گا ۔ ١

کربلا اور عبرتيں

کربلا،جائے عبرت

کربلا درس وسبق لينے کے علاوہ ايک جائے عبرت بھي ہے ۔ انسان کو چاہيے کہ اِس واقعہ کو غور سے ديکھے تاکہ وہ عبرت حاصل کرسکے ۔ کربلا سے عبرت لينے کا کيا مطلب ہے؟ يعني تاريخ کا قاري اپنے آپ کا اُن حالات اور نشيب و فراز سے موازنہ کرے تاکہ وہ ديکھے کس حال و وضع ميں ہے، کون سا امر اُس کيلئے خطرے کا باعث ہے اور کس امر کي انجام دہي اُس کيلئے لازمي و ضروري ہے ؟ اِسے عبرت لينا کہتے ہيں ۔ يعني آپ ايک راستے سے گزر رہے ہيں تو آپ نے ايک گاڑي کو ديکھا کہ جو الٹ گئي ہے يا اُس کے ساتھ کوئي حادثہ پيش آيا ہے، وہ نقصان سے دوچار ہوئي ہے اور نتيجے ميں اُس کے مسافر ہلاک ہوگئے ہيں ۔ آپ وہاں رک کر نگاہ کرتے ہيں، اِ س ليے کہ اِس حادثے سے عبرت ليں تاکہ يہ معلوم ہو کہ تيز رفتاري اور غير محتاط ڈرائيونگ کا انجام يہ حادثہ ہوتا ہے ۔ يہ بھي درس و سبق لينا ہے ليکن يہ درس از راہ عبرت ہے لہٰذا اِ س جہت سے واقعہ کربلا ميں غور وفکر کرنا چاہيے ۔ ١



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next