امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



 

ظالم طاقتوں کاکربلاسے خوف ميں مبتلا ہونا

يہ عظيم نعمت ،ہمارے قلوب کو ايمان و اسلام کے منبع سے متصل کرتي ہے اور ايسا کام انجام ديتي ہے کہ جو اُس نے تاريخ ميں انجام ديا کہ جس کي وجہ سے ظالم و جابر اور ستمگر حکمران واقعہ کربلا سے خوف ميں مبتلا ہوگئے حتيٰ کہ امام حسين کي قبر مبارک سے بھي خوف کھانے لگے ۔ واقعہ کربلا اور شہدائے کربلا سے خوف و ہراس بني اميہ کے زمانے سے شروع ہوا اور آج تک يہ سلسلہ جاري ہے ۔ آپ نے اِس کا ايک نمونہ خود ہمارے انقلاب ميں اپني آنکھوں سے ديکھا ہے، جب بھي محرم کا چاند طلوع ہوتا تھا تو کافر و فاسق پہلوي حکومت اپنے ہاتھوں کو بندھا

ہوامحسوس کرتي اور ہماري کربلائي عوام کے مقابلے کيلئے خود کو عاجز پاتي تھي اور پہلوي حکومت کے اعليٰ حکام محرم کے سامنے عاجز و درماندہ ہوجاتے تھے! اُس حکومت کي رپورٹوں ميں اشاروں اور صراحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ وہ محرم کي آمد سے بالکل چکرا جاتے تھے ۔ حضرت امام خميني۲ ، اُس دين شناس، دنيا شناس اور انسان شناس حکيم و دانا نے سمجھ ليا تھا کہ امام حسين کے اہداف تک رسائي کيلئے اِس واقعہ سے کس طرح استفادہ کيا جاسکتا ہے اور اُنہوں نے اِس سے اچھي طرح استفادہ کيا بھي۔ ١

------

١ ماہ محرم کي آمد پر علمائ سے خطاب 7/6/2004

 

تحريک امام حسين ميں مضمر تين عظيم پہلو

 

انقلابي تحريک،معنويت اور مصائب

تاريخ ميں ہميشہ کيلئے باقي رہنے والي اِس حسيني ٴتحريک کو تين پہلووں سے ديکھا جاسکتا ہے اور اِن تين پہلووں ميں سے جو پہلو سب سے زيادہ جلوہ افروز ہے وہ عزت و سربلندي اور افتخار کا پہلو ہے ۔

اِس تحريک کا ايک اور پہلوطاقتور باطل اور حق کے درميان جنگ ہے کہ جس ميں امام حسين نے ايک انقلابي تحريک اور اصلاح کيلئے جدوجہد کي روش کواپنايا، اِس تحريک کا ايک اور پہلو معنويت و اخلاق ہے ۔ اِس قيام و تحريک ميں ايک ايسا مبارزہ اور جنگ وجود رکھتي ہے جو سياسي اور اجتماعي پہلووں، انقلابي اقدامات اور حق و باطل کے علي الاعلان برسرپيکار آنے کے علاوہ ہے اور وہ انسانوں کے نفس اور اُن کے باطن کي جنگ ہے جہاںانساني وجود کے اندر موجود کمزورياں، مختلف قسم کي لالچيں، ذلت و پستي ، شہوت پرستي اور خواہشات نفساني کي پيروي اُسے بڑے اور اہم فيصلے کرنے اور بڑے بڑے قدم اٹھانے سے روکتي ہے ۔يہ ايک ميدانِ جنگ ہے اوريہ ايسي جنگ ہے جو اپني سختي و دشواري کے لحاظ سے اپنا جواب نہيں رکھتي؛ جہاں اہل ايمان اور فداکار مرد و زن کي ايک مختصر سي جماعت سيد الشہدا کے پيچھے چل پڑتي ہے تو وہاں اُن کے احساسِ ذمہ داري کے سامنے دنيا و مافيھا، دنيوي لذتوں اور اُس کي زيبائي اور رنگينيوں کي کوئي حيثيت باقي نہيں رہتي!يہ ايسے انسان ہيں کہ جن کے باطن ميں اُن کي معنويت کہ جسے روايات ميں جنود عقل (خدائي لشکر) سے تعبير کيا گيا ہے ،نے اُن کے شيطاني لشکروںيعني جنود جہل (شيطاني لشکر)پر غلبہ پاليا ہے اور اُن کا نام عظيم انسانوں کي حيثيت سے تاريخ ميں سنہري حروف سے آج تک درج ہے ۔ تيسرا پہلو کہ جو عوام ميں زيادہ مشہور ہے ، وہ مصائب اور غم و اندوہ کا پہلو ہے ليکن اِس تيسرے پہلو ميں بھي عزت و سربلندي اپنے عروج پر نظر آتي ہے لہٰذا اہل فکر و نظر کو اِن تينوں پہلووں کو مدنظر رکھنا چاہے ۔

 

١۔ انقلابي تحريک ميں عزت و سربلندي کا عنصر



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next