امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



٢ بحار الانوار جلد ٤٥، صفحہ ٨٣

ايک وقت کوئي شخص کوئي بات زبان سے ادا کرتا ہے اور اپني بات کہہ کر اپنے مقصد کو بيان کرتا ہے ليکن ہدف کے

حصول تک اپني بات پر قائم نہيں رہتا اور سخت حالات اور پريشانيوں کي وجہ سے عقب نشيني کرليتا ہے تو ايسا شخص ہرگز باعث عزت و افتخار نہيں ہوسکتا ۔ عزت و افتخار اُس انسان، جماعت يا قوم کيلئے سزاوار ہوتي ہے کہ جو اپني زبان سے ادا کي گئي باتوں پر آخر وقت تک قائم رہتے ہيں اور اِس بات کا موقع نہيں آنے ديتے کہ جو پرچم اُنہوں نے بلند کيا ہے طوفان کي تُند و تيز ہوائيں اُسے گراديں ۔ امام حسين اِس پرچم ہدايت کو مضبوطي سے تھامے رہے اور اِس راہ ميں اپني اور اپنے عزيز ترين افراد کي شہادت اور اپنے اہلِ وعيال کي قيد تک مضبوطي سے اپنے قدم جمائے رکھے؛ يہ ہے انقلابي تحريک ميں عزت و افتخار اور سربلندي کا معني۔

 

٢۔ معنويت و فضيلت کا مجسم ہونا

معنويت کا عنصر بھي حضرت امام حسين کے قيام اور تحريک ميں مجسم نظر آتا ہے ؛بہت سے افراد امام

حسين کے پاس آتے ہيںاور اُنہيںاُن کے قيام کي وجہ سے سرزنش کرتے ہيں ۔ يہ افراد معمولي يا برے افراد نہيںتھے بلکہ بعض اسلام کي بزرگ ہستيوں ميں شمارکيے جاتے تھے ليکن يہ افراد غلط سمجھ بيٹھے تھے اور بشري کمزورياں اِن پر غالب آگئي تھيں ۔ يہي وجہ تھي کہ اُنہوں نے چاہا کہ امام حسين کو بھي اُنہي بشري کمزوريوں کے سامنے مغلوب بنا ديں ۔سيدالشہدا نے صبر کيا اور مغلوب نہيں ہوئے اوريوں امام حسين کے ساتھ شامل ايک ايک شخص اِس معنوي اور اندروني جنگ ميں کامياب ہوگيا ۔وہ ماں کہ جس نے اپني پوري خوشي اور سر بلندي کے ساتھ اپنے نوجوان بيٹے کو ميدان جنگ بھيجايا وہ نوجوان کہ جس نے دنياوي لذتوں کو خير آباد کہہ کر خود کو ميدان جنگ ميں لہرائي جانے والي خون کي تشنہ تلواروں کے سامنے پيش کرديا يا حبيب ابن مظاہر جيسے بزرگ افراد اور مسلم ابن عوسجہ جيسے لوگ جو اپني ايام پيري کے راحت و آرام، نرم و گرم بستروں اور گھربار کو چھوڑ آئے اور ميدان جنگ کي تمام سختيوں کو تحمل کيا ۔اِسي طرح سپاہ دشمن ميں ايک خاص مقام کے حامل شجاع ترين سردار يعني حُر ابن يزيد رياحي نے اپنے مقام و منزلت سے صرف نظر کيا اور حسين ابن علي سے جاملا، يہ سب افراد معنوي اور باطني جنگ ميں کامياب ہوئے ۔

اُس معنوي جنگ ميں جو لوگ بھي کامياب ہوئے اور عقل وجہالت کے لشکروں کي محاذ آرائي ميں عقل کے لشکروں کو جہالت کے لشکروں پر غلبہ دينے ميں کامياب و کامران ہوئے، اُن کي تعداد بہت کم تھي ليکن اُن کي استقامت اور ثبات قدم اِس بات کا سبب بنے کہ تاريخ کے ہزاروں افراد اُن سے درس حاصل کريں اور اُن کي راہ پر قدم اٹھائيں ۔ اگر يہ لوگ اپنے وجود ميں فضيلتوں کو رذيلتوں پر غلبہ نہيں ديتے تو تاريخ ميں فضيلتوں کا درخت خشک ہوجاتا ہے مگر اِن افراد نے اپنے خون سے اِس درخت فضيلت کي آبياري کي ۔

آپ نے اپنے زمانے ميں بہت سے افراد کو ديکھا ہے کہ جو رذائل و فضائل کي اِس جنگ ميں کامياب ہوئے ہيں اوراُنہوں نے اپني خواہشات نفساني کو عقل اور صحيح ديني فکر سے کنٹرول کيا ہے ۔ دنيا کے لوگوں نے آپ سے بہت سي باتيں سيکھي ہيں؛يہ فلسطيني ماں جو اپنے بيٹے کے ماتھے کو چوم کر اُسے ميدان جنگ ميں بھيجتي ہے اِس کي ايک مثال ہے ۔اِسي فلسطين ميںسالوںسے زن و مرد اور پيرو جوان سبھي موجود تھے

ليکن اپنے ضُعف اور معنوي جنگ کي صف آرائي ميں عقل کے لشکروں کے جہالت کے لشکروں پر غالب نہ آنے کي وجہ سے فلسطين ذلت و رسوائي کا شکار ہوگيا اور دشمن نے اُس پر غلبہ پاليا ۔ ليکن آج يہي فلسطين ايک دوسري شکل ميں موجود ہے، آج فلسطين نے قيام کرليا ہے، آج فلسطيني عوام نے اپنے اندر معنوي جنگ کي صف آرائي ميں معنوي لشکر وں کو غالب کرديا ہے اور يہ قوم کامياب اور سرفراز ہوگئي ہے ۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next