امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



 

ميں دوسروں سے زيادہ اِس قيام کيلئے سزاوار ہوں

پس اِن حالات ميں ذمے داري کيا ہے؟اس حديث نبوي  Ú©ÙŠ روشني ميں ذمہ داري ’’ يُغيِّر بِقَولٍ وَلَا فِعلٍ‘‘ (اپنے زبان Ùˆ عمل سے اقدام کرے) ہے Û” اگر انسان اِن حالات کا مشاہدہ کرے البتہ شرائط Ùˆ

--------

١ بحار الانوار جلد ٤٤ ، صفحہ ٣٨٢

حالات کا مناسب ہونا ضروري ہے، تو اُس پر واجب ہے کہ ظالم Ùˆ جائر حاکم Ú©Û’ عمل Ú©Û’ جواب ميں قيام Ùˆ اقدام کرے Û” وہ اِس قيام Ùˆ اقدام ميں کسي بھي حالات سے دوچار ہو، قتل ہوجائے، زندہ رہے يا ظاہراً اُسے کاميابي نصيب ہو يا نہ ہو، اِن تمام حالات ميں ’’قيام‘‘ اُس کا وظيفہ ہے Û” يہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اِن حالات ميں قيام Ùˆ اقدام کرے اور يہ وہ ذمہ داري ہے کہ جسے حضرت ختمي مرتبت  Ù†Û’ بيان فرمايا ہے Û”

اِس Ú©Û’ بعد سيد الشہدا Ù†Û’ فرمايا: ’’وَاِنِّي اَحَقُّ بِھٰذَا‘‘ ،ميں اِس قيام کيلئے بقيہ تمام مسلمانوں سے زيادہ سزاوار ہوں کيونکہ ميں فرزند پيغمبر  ہوں Û” اگر پيغمبر  Ù†Û’ حالات Ú©ÙŠ تبديلي يعني اُس قيام Ú©Ùˆ ايک ايک مسلمان پر واجب کيا ہے تو ظاہرہے کہ حسين ابن علي جو فرزند پيغمبر  ہیں اور اُن Ú©Û’ علم Ùˆ حکمت کا وارث بھي ہیں، اِس قيام کيلئے دوسروں سے زيادہ مناسب ہیں Û” پس امام حسين فرماتے ہيں کہ ميں Ù†Û’ اِسي لئے قيام کيا ہے اور وہ اپنے قيام Ú©Û’ علل Ùˆ اسباب Ú©Ùˆ بيان فرما رہے ہيں Û”

 

جو کچھ خدا نے ہمارے لئے چاہا ہے ، خير ہے

’’اَزيد‘‘ نامي منزل پر کہ جب چار افراد حضرت ٴ سے آملے ، آپ نے فرمايا: ’’ اَمَّا وَاللّٰہِ اَنِّي لَاَرجُو اَن يَکُونَ مَا اَرَادَ اللّٰہُ بِنَا قُتلِنَا اَو ظَفُرنَا ‘‘ ، ’’جو کچھ اللہ نے ہمارے ليے مقرر کيا ہے وہ ہمارے ليے صرف خير وبرکت ہي ہے، خواہ قتل کرديے جائيں يا کامياب ہوجائيں‘‘۔ کوئي فرق نہيںہے خواہ کاميابي ہمارے قدم چومے يا راہ خدا ميں قتل کرديے جائيں، ذمے داري کو ہر صورت ميں ادا کرنا ہے؛ آپ نے يہي فرمايا کہ خداوند عالم نے جس چيز کو ہمارے لئے مقرر فرمايا ہے، اُس ميں ہمارے ليے بہتري اور بھلائي ہي ہے؛ ہم اپني ذمہ داري کو ادا کررہے ہيں خواہ اِس راہ ميں قتل کرديئے جائيں يا کامياب ہوجائيں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next