امام حسين علیہ السلام دلُربائے قلوب



صدر اسلام Ú©ÙŠ کسي جنگ ميں جب حق Ùˆ باطل Ú©Û’ لشکر مقابلے کيلئے صف آرا ہوئے تو محاذ جنگ ميں سرفہرست رہنے والي شخصيات ميں پيغمبر اکرم  اور امير المومنين پيش پيش تھے، پيغمبر اکرم  Ù†Û’ اپنے سپاہيوں سے پوچھا کہ’’کون ہے جو ميدان جنگ ميں جائے تاکہ دشمن Ú©Û’ فلاں معروف جنگجو Ú©Ùˆ قتل کرسکے‘‘؟ سپاہ اسلام ميں سے ايک نوجوان Ù†Û’ حامي بھري اور سامنے آگيا؛ حضرت ختمي مرتبت  Ù†Û’ اُس Ú©Û’ سر پر ہاتھ پھيرا اور Ø¢Ú¯Û’ تک اُس Ú©Û’ ساتھ گئے، مسلمانوں Ù†Û’ بھي اُس کيلئے دعا Ú©ÙŠ اور وہ يوں ميدانِ جنگ ميں قدم رکھتا ہے، جہاد کرتا ہے اور درجہ شہادت پر فائز ہوتا ہے؛يہ ايک قسم کا جہاد کرنا اور قتل ہونا ہے Û” ايک اور قسم کا جہاد وہ ہے کہ جب انسان ميدان نبرد ميں قدم رکھتا ہے تو معاشرے Ú©ÙŠ اکثريت يا اُس Ú©ÙŠ منکر Ùˆ مخالف ہے يااُس Ú©ÙŠ شخصيت اور مقام Ùˆ منزلت سے غافل؛يا اُس سے کنارہ کشي اختيار Ú©ÙŠÛ’ ہوئے ہے يا اُس سے مقابلے کيلئے نيزوں Ú©Ùˆ ہوا ميں لہرا رہي ہے اور تلواروں Ú©Ùˆ باہر نکالے ہوئے ہے اور وہ افراد جو اپنے قلب سے اُس Ú©Ùˆ داد Ùˆ تحسين دينے والے ہيں وہ تعداد ميں بھي Ú©Ù… ہيں اوروہ بھي اُس Ú©Ùˆ زباني داددينے Ú©ÙŠ جرآت نہيں رکھتے Û”

تحريک کربلا ميں ’’عبد اللہ ابن عباس ۱ ‘‘ اور ’’عبد اللہ ابن جعفر‘‘ جيسے افراد بھي جو خاندان بني ہاشم سے تعلق کھتے ہيں اور اِسي شجرہ طيبہ سے متصل ہيں، جرآت نہيں کرتے کہ مکہ يا مدينہ ميں کھڑے ہوکر فرياد بلند کريں اور امام حسين کيلئے اور اُن کي حمايت ميں نعرے لگائيں؛يہ ہے غريبانہ جنگ اور مبارزہ!اوريہ ايسي سخت ترين جنگ ہے کہ جہاں تمام افراد اِس لڑنے والے انسان سے روگرداں اور اُس کے دشمن ہوں ۔ امام حسين کي جنگ ميں اُن کے بعض دوستوں نے بھي اُن سے منہ موڑ ليا تھا جيسا کہ اُن ميں سے ايک سے جب سيد الشہدا نے کہا کہ ’’آو ميري مدد کرو‘‘ تو اُس نے مدد کرنے کے بجائے حضرت کیلئے اپنا گھوڑا بھيج ديا اور کہا کہ ’’ميرے گھوڑے سے استفادہ کيجئے‘‘۔

اِس سے بھي بڑھ کر غربت و تنہائي اور کيا ہو گي اور اِس غريبانہ جنگ سے بھي بڑھ کر اور کون سي جنگ ہے؟! اور اِس کے ساتھ ساتھ اِس غربت و تنہائي کي جنگ ميں اُس کے عزيز ترين افراد کو اُس کي آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کرديا جاتا ہے، اُس کے بھتيجے، بيٹے، بھانجے، بھائي، چچا زاد بھائي ، بہترين اصحاب اور گل ہائے بني ہاشم اُس کے سامنے ايڑياں رگڑ رگڑ کر جان دے ديتے ہيں ! حتيٰ اُس کے شير خوار شش ماہہ بچے کو بھي موت کے

گھاٹ اتار ديا جاتا ہے!

اِن تمام مصائب اور جان فرسا سختيوں Ú©Û’ علاہ وہ جانتا ہے کہ جيسے ہي اُس Ú©ÙŠ روح اُس Ú©Û’ جسم سے جدا ہوگي اُس Ú©Û’ اہل Ùˆ عيال، بے پناہ Ùˆ بے دفاع ہوجائيں Ú¯Û’ اور دشمن Ú©Û’ حملوں کا نشانہ بنيں Ú¯Û’ Û” وہ اِس بات سے بھي آگاہ ہے کہ سپاہِ يزيد Ú©Û’ بھوکے بھيڑيے اُس Ú©ÙŠ چھوٹي اور نوجوان بچيوں پر حملہ آور ہوں Ú¯Û’ØŒ اُن Ú©Û’ ننھے ننھے دلوں Ú©Ùˆ خوف سے دہلا ئيں Ú¯Û’ اور اُن Ú©ÙŠ بے حرمتي کريں Ú¯Û’ Û” وہ اِس بات کا بھي علم رکھتا ہے کہ يہ بے غيرت لوگ دنيائے اسلام Ú©ÙŠ مشہور شخصيات سے تعلق رکھنے والي امير المومنين Ú©ÙŠ عظيم دختر حضرت زينب کبريٰ  Ú©ÙŠ بے حرمتي اور اُن سے جسارت کريں Ú¯Û’Ø› وہ اِن تمام حالات سے آگاہ Ùˆ باخبر تھا Û”

اِن مشکلات اور سختيوں کے ساتھ ساتھ اُس کے اہل و عيال کي تشنگي کا بھي اضافہ کيجئے؛ شير خوار بچہ تشنہ، چھوٹے بچے اور بچياں پياس سے جاں بہ لب اور نڈھال، بوڑھے اور ضعيف العمر افراد تشنگي سے بے حال؛ کيا آپ تصور کرسکتے ہيں کہ يہ جنگ کتني سخت ہے؟ اتناپاک و پاکيزہ، نوراني اور عظيم المرتبت انسان کہ آسمان سے ملائکہ جس کي زيارت کيلئے ايک دوسرے پر سبقت ليتے ہيں تاکہ اُس سے متبرّک ہوں، ايسا انسان کہ انبيائ اور اوليائ جس کے بلند و بالا مقام پر رشک کرتے ہيں، ايسي سخت ترين جنگ اور شديد ترين مصائب اور طاقت فرسا سختيوں کے ساتھ شہيد ہوجاتا ہے! ايسے شخص کي شہامت بہت ہي عجيب و غريب ہے، ايسا کون سا انسان ہے کہ جو اِس دلخراش واقعہ کو سن کر متآثر نہ ہواوروہ کون انسان ہے کہ جس کے سينے ميںدل دھڑکتا ہو اوروہ اِس واقعہ کو سمجھے ، پہچانے اور اُس کا عاشق نہ بنے؟!

يہ وہ چشمہ ہے جو روزِعاشوراُس وقت جاري ہوا کہ جب حضرت زينب ’’تلّہ زينبيہ‘‘پر تشريف Ù„Û’ گئيں اور پيغمبر  Ú©Ùˆ مخاطب کرتے ہوئے فرمايا کہ ’’يَا رَسُولَ اللّٰہِ ! صَلّيٰ عَلَيکَ مَلَائِکۃُ السَّمَآئِ ØŒ ھَذاحُسَين مُرَمَّل? بِالدِّمَآئِ ØŒ مُقَطَّعُ الاَعضَآئِ ØŒ مَسلُوبَ العَمَّامَۃِ والرِّدَآئِ‘‘؛ ’’ اے نانا رسول اللہ ! آسمان Ú©Û’ ملائکہ آپ پر درودو سلام بھيجيں،يہ آپ کا حسين ہے، اپنے ہي خون ميںغلطاں، جس کا جسم پائمال ہے اور جس Ú©Û’ عمامے اورعبا Ú©Ùˆ لوٹ ليا گيا ہے‘‘۔ حضرت زينب  Ù†Û’ يہاں امام حسين Ú©Û’ مصائب Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ شروع Ú©ÙŠÛ’ اور با آواز بلند اُس واقعہ Ú©Ùˆ بيان کرنا شروع کيا کہ جسے يہ لوگ چھپانا چاہتے تھے Û” سيد

الشہدا کي عظيم المرتبت خواہر نے کربلاوکوفہ اور شام و مدينہ ميں با آواز بلند واقعہ عاشورا کو بيان کيا، يہ چشمہ اُس وقت اُبلا اور آج تک جاري و ساري ہے!

 

مجالس اور کربلا کي عظيم نعمت

جب ايک انسان کا دامن ايک نعمت سے خالي ہوتا ہے تو اُس سے اُس نعمت کاسوال بھي نہيں کيا جاتا ليکن جب انسان ايک نعمت سے بہرہ مند ہو تا ہے تو اُس سے اُس نعمت کے متعلق ضروربا ز پُرس کي جائے گي۔ ہمارے پاس بزرگترين نعمتوں ميں سے ايک نعمت،مجالس عزا ، محرم اور کربلا کي نعمت ہے؛افسوس يہ ہے کہ ہمارے غير شيعہ مسلمان بھائيوں نے اپنے آپ کو اِس نعمت عظميٰ سے محروم کيا ہوا ہے، وہ اِس نعمت سے بہرہ مند ہوسکتے ہيں اور اِس کے امکانات بھي موجود ہيں ۔ البتہ بعض غير شيعہ مسلمان بھي دنيا کے گوشہ و کنار ميں محرم کے ذکر اورواقعہ کربلا سے بہرہ منداور مستفيد ہوتے ہيں ۔آج جبکہ ہمارے درميان محرم اور واقعہ کربلا کا تذکرہ اور امام حسين کي بے مثال قرباني کا ذکر موجود ہے تو اِيسے وقت ميںاِن مجالس اور تذکرے سے کيا فائدہ اٹھايا جاسکتا ہے اور اِس نعمت کا شکرانہ کيا ہے؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 next